زندگی آگ بھی ہے، پانی بھی


ایک دن آنٹی کے ملنے والوں کی بیٹی کی منگی کا بلاوا آیا۔ میں نے اپنا لہنگا چولی پہننے کا سوچا۔ پوری الماری چھان ماری لیکن نہیں ملا۔ میرے جہیز کا ایک سوٹ کیس اسٹور میں رکھا تھا سوچا شاید اس میں ہو۔ لیکن وہاں بھی نہیں تھا۔ آنٹی نے پوچھا کہ میں کیا ڈھونڈ رہی ہوں۔  میں نے بتایا کہ میرا لہنگا نہیں مل رہا۔ ان کا چہرے کا رنگ اڑ سا گیا میں پریشان ہو گئی۔ مجھے لگا شاید وہ یہ سمجھ رہی ہیں کہ میں کسی پر شک کر رہی ہوں۔  میں کوئی بد مزگی نہیں چاہتی تھی۔  ”کوئی بات نہیں آنٹی شاید میں امی کی طرف چھوڑ آئی ہوں“ میں نے ولید سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا کہ کہیں اس کا دل بھی برا نہ ہو۔

ولید اور میں نے گھر ڈھونڈنا شروع کردیا۔ ایک آدھا بنا ہوا گھر ہمیں مناسب لگا لوکیشن بھی اچھی تھی۔ ولید کے گھر سے زیادہ دور بھی نہ تھا۔ ہم نے اس میں اپنی مرضی سے کچن اور باتھ رومز بنوائے۔  ایک ایک چیز ہم نے خود پسند کی اور دل و جان اس کی آرائش اور سجاوٹ کی۔ لہنگے والی بات ذہن کے کسی گوشے میں دب گئی۔  امی ابو نے مجھے جہیز نہیں دیا تھا اس لئے  فرنیچر کے لئے  پیسے دے دیے۔  گھر تیار ہو گیا اور ہم اس میں شفٹ ہو گئے۔  اسی دوران میں نے جاب کے لئے  درخواستیں دیتی رہی۔

ابھی آئے ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ مجھے انٹرویز کی کالز آنی شروع ہو گیں۔  دو جگہ تو کام نہیں بنا۔ ایک جگہ سے مجھے مزید بات چیت کے لئے  دوبارہ بلایا گیا۔ گفتگو تسلی بخش تھی اور مجھے غیر رسمی طور پر جاب آفر ہو گئی۔ کہا کہ آفیشلی ایک دو دن میں اطلاع مل جائے گی۔ میں بہت خوش تھی۔ راستے سے کیک خریدا گروسری کی سوچا آج کچھ اچھا سے بناوں گی۔ گھر پہنچی تو ڈرایؤ وے میں ولید کی گاڑی بھی کھڑی تھی۔ چلو اچھا ہوا ولید جلدی آ گیا اب مل کر کھانا بنایں گے۔  میں نے گاڑی سے سامان اترا اور لدی پھندی گھر میں داخل ہوئی۔ کچن سے میوزک کی آواز آ رہی تھی۔ میں گروسری کے بیگ اٹھائے کچن کی طرف مڑی۔ یوں لگا جیسے ایک سایا سا تیزی سے کچن سے نکل کر بیڈ روم کی طرف لپکا۔ مجھے ایک اڑتا ہوا سا پیراہن دکھائی دیا۔  ”ولید“ میں نے آواز دی۔

 ”آ رہا ہوں“۔  اس کی آواز بیڈ روم سے آ رہی تھی۔ میں بھی کمرے میں آئی۔  ”باتھ روم میں ہوں۔  ابھی آیا۔ “ دس منٹ بعد وہ نہا دھو کر نکلا۔ اس دوران میں نے کمرے کا پوری طرح جاِیئزہ لے ڈالا۔ بلکہ پورا گھر ٹٹول لیا۔ کیا یہاں کوئی اور بھی تھا؟ دل کو شک نے آ لیا۔

 ” ہیلو جانم کیسا تھا تمہارا دن؟ انٹرویو کیسا رہا؟ “۔

 ” اچھا تھا۔ مجھے جاب مل جائے گا۔ “ میں اب بھی کچھ الجھی ہوئی تھی۔

 ” واہ مبارک ہو۔ وہ خوشی سے بولا“ آج تو پھر سیلیبریٹ کرنا چاہیے۔  چلو باہر ڈنر کرتے ہیں ”

کھانا بنانے کا پلان اگلے دن پر اٹھا دیا اور ڈنر کے لئے  تیار ہو گئی۔ دل میں آیا شک میں نے جھٹک دیا۔

مجھے جاب مل گیا۔ کام میرے فیلڈ سے تعلق رکھتا تھا اور دلچسپ بھی۔ ابھی چار مہینے ہی کام کرتے ہوئے گزرے کہ ہمیں معلوم ہوا کہ ہم والدین بننے والے ہیں۔  ہم دونوں تو خوش تھے ہی لیکن ہمارے گھر والوں کی خوشی کا ٹھکانہ تھا۔ ولید کے گھر ہم دونوں گئے اور خوش خبری سنائی۔ آنٹی نے خوشی اور حیرانی سے مجھے دیکھا۔

 ” واقعی؟ کیا یہ سچ ہے؟ “ وہ کچھ حیران سی لگیں اور ان کی حیرانی پر مجھے حیرانی ہوئی۔

 ” جی سچ ہے۔  کہیں تو آپ کو ٹیسٹ کی رپورٹ دکھا دیں؟ “ ولید نے کہا

 ” ارے نہیں۔  مبارک ہو۔ میں خوشی سے بے قابو ہو رہی ہوں“

میری طبیعت چند دن خراب رہی۔ صبح اٹھنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ کام سے کچھ دن چھٹی کی۔ ولید نے میرا بہت خیال رکھا۔ گھر کے سارے کام بھی کرتا رہا۔ جاب سے آ کر کھانا بناتا اور مجھے بہت پیار سے کھلاتا۔ میری طبیعت سنبھلنے لگی۔ سوچا اب بے بی کے لئے  کمرا ٹھیک کرنا ہوگا۔ ہمارا تین بیڈ رومز کا گھر تھا۔ ایک ہم نے اسٹڈی بنا دیا۔ ایک میں فالتو سامان پڑا تھا۔ اسے ہی نرسری بنانے کا سوچا۔

صبح ولید کام پر نکل گیا۔ میں نرسری روم کا جاِیئزہ لینے لگی۔ کافی سامان اب بھی باکسز میں پڑا تھا۔ سوچا چلو آج جتنا ہو سکے سامان نکلا کر سیٹ کر لوں۔  ایک باکس میں سردیوں کے کپڑے تھے۔  نکال کر ہینگروں میں لٹکائے۔  ایک میں میرے اضافی جوتے تھے انہیں شیلف میں رکھا۔ ایک اور باکس کھولا تو پہلے تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ہے۔  ایک ایک چیز نکال کر غور سے دیکھنا شروع کیا تو دم بخود رہ گئی۔ مختلف رنگوں اور اسٹایئلز کی چند وگز، زنانہ کپڑے، اونچی ایڑی کے سینڈل اور بوٹس، میک اپ کٹ، زیر جامے اور سینے کے مصنوعی ابھار۔ اور میرا گمشدہ لہنگا بھی۔ میرا سانس رکنے لگا۔ دل کی دھڑکنیں ڈوبنے لگیں۔  دماغ میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔  میں کمرے میں آ کر لیٹ گئی

دل اتنا بوجھل تھا لیکن مجھے رونا بھی نہیں آ رہا تھا۔ مجھے لگا میرے سپنوں کے محل میں زلزلہ آ گیا اور ہر چیز تہس نہس ہو گئی۔ یہ سب چیزیں کس کی ہیں؟ ولید کے پاس کیوں ہیں؟ یہ میں نے کس سے شادی کر لی؟ یہ کون ہے؟  سارا دن اسی طرح گزرا۔ ولید کا فون آیا تو اٹینڈ نہیں کیا۔ مسیج کا جواب بھی نہیں دیا۔ وہ گھبرا کر خود ہی دوڑا آیا۔ مجھے آوازیں دیتا گھر میں داخل ہوا اور بیڈ روم میں آ گیا۔

 ” سمن۔ سمن۔ تم ٹھیک تو ہو نا؟ “ میں اس کا ہاتھ پکڑ کر دوسرے کمرے میں لے گئی۔ باکس کی چیزیں فرش پر پھیلی ہوئی تھیں۔

 ” یہ سب کیا ہے ولید؟ کس کا ہے؟ “ میں نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا۔ وہ کچھ دیر چپ کھڑا رہا۔

 ” سب چیزیں میری ہیں۔  میں شاور لے کر آتا ہوں پھر بات کریں گے“۔

وہ فریش ہو کر آیا اور میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔

 ” ولید۔ یہ۔ یہ؟ “ میں بالآخر رو پڑی۔

 ” میرا شوق ہے۔  کراس ڈریسنگ۔ “ اس کا لہجہ ویسا ہی ٹھہرا ہوا سا تھا

میں دم بخود تھی۔ بمشکل کہہ سکی ”شوق؟ اتنا غلط شوق؟ “

 ” غلط کیوں؟ لڑکیاں بھی تو مردانہ کپڑے پہنتی ہیں۔  تم بھی پہنتی ہو۔ پینٹ، کوٹ“

 ” یہ اور بات ہے۔ “

 ” کیسے اور بات ہے؟ میرا یہ شوق کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہا۔ میں اپنے سارے فرائض ادا کر رہا ہوں۔  تمہارے حقوق ادا کر رہا ہوں۔ “ میں نے کچھ کہنا چاہا۔ لیکن وہ بولتا رہا۔

 ” تم مجھ پر شک مت کرو۔ میں ہومو سیکشوئل نہیں ہوں بائی سیکشوئل بھی نہیں ہوں۔  میں ٹرانس جینڈر بھی نہیں ہوں۔  ڈریگ کویئن بھی نہیں ہوں۔  مجھے عورتوں میں دلچسپی ہے اور تم پر تو میں مرتا ہوں۔  ہم دونوں محبت کرتے ہیں ایک دوسرے کو مطمین کرتے ہیں۔  کیا تم نے کبھی کوئی کمی محسوس کی“؟

یہ حقیقت تھی کہ میں نے اس کے پیار میں کوئی کمی نہیں پائی۔ اس کا والہانہ پن اور پوری توجہ مجھے حاصل رہی ہے۔  وہ اب دھیرے دھیرے کھل رہا تھا۔

 ” میں دس گیارہ سال کا تھا جب میں اپنی بہن کو رنگ برنگے کپڑوں میں دیکھتا تو دل چاہتا میں بھی یہ پہن کر دیکھوں۔  ایک دن میں نے اس کے کپڑے چپکے سے نکال کر کمرے میں لے آیا اور پہن لیے۔  میں آئینے میں خود کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔ اس کے بعد بھی چند دفعہ میں نے بہن کے کپڑے پہنے ایک دن اس نے دیکھ لیا اور ماں کو بلا لیا۔ ماں نے خوب ڈانٹا اور سختی سے منع کیا کہ ایسا پھر کبھی نہ کرنا۔ لیکن مجھے جب بھی موقع ملتا، میں کرتا۔ میں بڑا ہوا تو بہن کے کپڑے مجھے چھوٹے ہونے لگے۔  میں نے ماں کے کپڑے پہنے لیکن وہ پرانی وضع کے تھے۔  میں نے خود خریدنے شروع کر دیے اور انہیں چھپا کے اپنی الماری میں رکھا۔ ایک دن ماں نے الماری کی صفائی کی تو دیکھ لیے۔  اس دن مجھے بہت ڈانٹ پڑی۔ بہت ذلیل کیا گیا۔ مجھے کھسرا کہا۔ خاندان کے نام پہ دھبہ کہا۔ “ ولید کی آواز بھرا گئی۔ مجھے اس پر ترس بھی آ رہا تھا اور وحشت بھی ہو رہی تھی۔  ”پھر مجھے شادی کرنے پر زور دینا شروع کردیا کہ شاید مجھ میں جو خامی یا کمی ہے اس طرح دور ہو جائے“

 ” لیکن ایسا نہیں ہوا“ میں دکھ سے بولی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3