زندگی آگ بھی ہے، پانی بھی


 ” میں کوئی جاہل اور احمق انسان نہیں ہوں۔  میں نے اس کے بارے میں بہت پڑھا ہے۔  بہت کھوج لگائی ہے۔  یہ کوئی بیماری نہیں ہے جس کا علاج کیا جانا چاہیے یا کیا جا سکے۔  ہاں ایک مینٹل ڈس آرڈر ضرور ہے۔  اس کا کوئی علاج نہیں۔  یہ ایک بے ضرر سا عمل ہے۔ “

 ” میری دنیا ہل کر رہ گئی ہے تم کہتے ہو یہ بے ضرر ہے“؟

 ” تمہاری دنیا اسی طرح محکم اور مضبوط ہے۔ “

 ” تم نے یہ بات مجھ سے چھپائی۔ کیوں؟

 ” ہاں میں نے چھپائی۔ سوچا تھا جب ساتھ مضبوط ہو جائے گا اور ہم آہنگی ہو جائے گی تو بتا دوں گا۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہیں اس طرح اچانک یہ بات پتہ چلی۔ ویسے تم نے بھی شاید ہر بات مجھے نہ بتائی ہو۔ جیسے کہ جب ہم ترکی میں تھے تو تم بڑے شوق سے شیشہ کیفے میں جا کر کش لگاتی رہی ہو۔ ایک پارٹی میں تو میں نے سگریٹ بھی تمہاری انگلیوں میں دیکھا تھا تم نے کبھی نہیں بتایا کہ تم اسموکنگ کرتی ہو۔ میں تمہیں منع کر سکتا تھا کیونکہ اسوکنگ صحت کے لئے  مضر ہے۔  لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اتنا تو تمہیں بھی علم ہے کہ مضر صحت ہے۔ “

 ” وہ اور بات ہے۔  وہ وقتی تفریح ہے“

 ” یہ بھی وقتی تفریح ہے۔  میں سچ مچ تمہیں بتانا چاہتا تھا۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ تم اتنی سمجھدار ہو میرے اس شوق کو برداشت کر لو گی۔ “

اچھا تو یہ سمجھداری کے تمغے مجھے اسی سلسلے میں مل رہے تھے۔

 ” تم آرام کرو۔ میں کھانا بناتا ہوں۔  بعد میں بات کریں گے“

کھانا بے دلی سے کھایا۔ رات بھی بے چینی میں گزری۔ صبح ولید کے جاتے ہی میں کمپیوٹر پر بیٹھ گئی۔ انٹر نیٹ چھان مارا۔ کراس ڈریسینگ پر جو بھی ملا میں نے پڑھ ڈالا۔ ولید کی بات ٹھیک تھی۔ کراس ڈریسینگ بیماری نہیں جس کا علاج کیا جا سکے۔  یہ ایک مینٹل ڈس آرڈر ضرورہے۔  لیکن یہ کسی تھراپی یا کونسلنگ سے بھی دور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رحجان غلط تو سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اس قدر خوفناک بات نہیں ہے۔  کراس ڈریسینگ کرنے والے ہم جنس نہیں نہ ہی یہ فحاشی کے زمرے میں آتا ہے۔  مرد کراس ڈریسینگ کرنے سے عورت کے نزدیک تر آنے کے تجربے سے گزرتے ہیں۔  اس طرح وہ عورت کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور جنسی عمل سے مزید لطف اندوز ہوتے ہیں۔  میں جیسے جیسے یہ سب پڑھ رہی تھی مجھ پر گتھیاں کھل رہی تھیں۔  دماغ مان رہا تھا لیکن دل اب بھی اس کو ماننے کو تیار نہیں تھا۔ شاید کوئی تھراپی مدد کر سکے۔  لیکن ولید تو اسے مسلئہ ہی نہیں سمجھ رہا، وہ تھراپی پر کیوں جائے گا۔

شام ہوتے ہی ولید آ گیا۔ کھانا وہ باہر سے لے آیا تھا۔ اس کا رویہ ایسا تھا جیسے کوئی غیر معمولی بات ہوئی ہی نہیں ہے۔  میرا حال پوچھا۔ میں نے کچھ کھایا یا نہیں۔  وٹامنز لیں یا نہیں۔  نیند پوری ہوئی یا نہیں۔  کس قدر وہ میرا خیال رکھتا ہے۔

کھانے کے بعد اس نے خود ہی بات چھیڑی۔

 ” تم اب بھی الجھی ہوئی ہو؟ “

 ” ہاں۔  کافی کچھ سمجھنے کے بعد بھی میرا دل نہیں مان رہا“

 ” ٹھیک ہے تم جو فیصلہ کرو مجھے منظور ہوگا۔ “

 ” میں کیا کروں؟ “ میں رو دی۔

 ” تم یہ کر سکتی ہو کہ مجھ پر پابندی لگا دو۔ جواب میں میں بھی یہی کچھ تمہارے ساتھ کرنے لگوں۔  جو مجھے منظور نہیں۔  ہم دونوں گھٹن میں زندگی نہیں گذار سکیں گے۔  پابندی لگانے سے شوق دب تو سکتے ہیں مٹ نہیں سکتے۔  تم مجھ سے جدا بھی ہو سکتی ہو۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ تمہارے بغیر میں مر جاوں گا لیکن ٹھیک سے جی بھی نہیں سکوں گا۔ آخری چوائس یہ ہے کہ تم مجھے میری خامیوں سمیت قبول کر لو۔ “

 ” ولید ہمارا بچہ دنیا میں آنے والا ہے۔  وہ کیسے اس ماحول میں رہے گا جہاں باپ عورتوں کے حلیے میں گھومتا پھرے۔ “

 ” ہم اپنے بچے کی پرورش اصلی اور اخلاقی اقدار پر کریں گے۔  یہ باتیں بے معنی ہیں کہ کون کیا پہنتا ہے“

میں کئی دن خود سے الجھتی رہی۔ لڑتی رہی۔ تھکتی رہی۔ اور پھر ہار گئی۔

اور اب یہ عالم ہے کہ میں نے سمجھوتہ کر لیا۔ میں نے ولید کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ پتہ نہیں یہ فیصلہ درست ہے یا نہیں۔  ولید کسی کسی شام زنانہ کپڑے پہنتا ہے۔  میک اپ بھی کرتا ہے۔  اس روز وہ اور ٹوٹ کر مجھ سے پیار کرتا ہے۔  شروع شروع میں مجھے الجھن ہوتی تھی اب برداشت کر لیتی ہوں۔  ولید کی محبت میں میرے لیے اور بھی شدت آ گئی۔ میرے ہر ڈاکٹر اپاینٹمنٹ میں وہ ساتھ جاتا ہے۔  ہر لاماز کلاس میں میرے ساتھ بیٹھ کر سانس کی مشق کرتا ہے۔  ہر الٹرا ساونڈ میں میرا ہاتھ تھامے ہوتا ہے۔  جس دن ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہمارا آنے والابچہ لڑکا ہے اس نے واپسی پر ہلکا آسمانی پینٹ خریدا اور نرسری کی دیواریں رنگ دیں۔  بچے کی ہر شاپنگ ہم نے مل کر کی۔ میرا خیال پہلے سے زیادہ رکھا۔ بلکہ وہ تو ایک بے بی بمپ بھی خرید لایا اور پیٹ پر باندھ کر گھر میں گھومتا۔

 ” اب اندازہ ہوا کہ ماں بننے والی کن مشکلات سے گزرتی ہے۔  اتنا بوجھ پیٹ میں لے کر چلنا اور کام کرنا آسان نہیں“  اور میں بس دیکھتی رہ گئی۔

اب ہم شاپنگ بھی ساتھ کرتے ہیں ایک جیسے لباس اور میک اپ کا سامان خریدتے ہیں۔  ابھی تک تو ولید کا یہ شوق گھر کے اندر تک محدود ہے لیکن اگر کبھی گھر سے باہر بھی اس حلیے میں نکلنا چاہا تو؟  اب تک تو یہ ایک راز ہے لیکن کسی دن یہ راز کھل بھی سکتا ہے۔  پھر کیا ہوگا؟ مجھے کبھی کبھی یہ سوچ آ لیتی ہے۔ زندگی ہے نا یہ، آگ بھی ہے، پانی بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3