آج رات کے بے نوا مسافر ناصر کاظمی کا یوم پیدائش ہے


ادب میں زمانہ ایک آن واحد ہوتا ہے۔ ادب تو زمانے کی بے رحم گردش پر غالب آنے کا ایک وسیلہ ہے۔ اسی لیے ناصر نے گزشتہ ادوار کے تمام ادیبوں کو اپنا ہم عصر قرار دیا تھا۔ اس نے اپنا نظریہء ادب بیان کرتے ہوئے کائنات کے اولین لمحے کا حوالہ دیا تھاجب ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔ اس دھوئیں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتا ہے :

”یہ دھواں سرے سے غائب نہیں ہو گیا۔ بلکہ بلندیوں اور پستیوں کے درمیان قناتیں بن کر محیط ہو گیا اور ان میں کچھ روشن روشن روزن بن گئے۔ آنکھ والا ہو تو ان روزنوں سے وہ منزلیں دیکھ سکتا ہے جہاں سے پہلی کرن نے اپنا سفر شروع کیا تھا، جہاں نیست ہست ہوا۔ مخلوق وجود میں آئی۔ جنہیں شک ہے وہ اسے محض دھواں ہی سمجھتے ہیں۔ جو صاحب تخلیق ہیں اور اپنے سینے میں یقین کی روشنی رکھتے ہیں وہ اس دھوئیں کی طرف روشنی سمجھ کر دوڑتے ہیں اور کبھی کبھی بلکہ اکثر اپنی فضائے یاد میں اس دھوئیں کو منجمد کرکے نئی دنیا تخلیق کرتے ہیں۔ “ (ایضاً، ص 309 )

چنانچہ حقیقی تخلیقی ادب وہی ہو گا جوزمانی اور مکانی حوالوں سے ماورا ہو گا۔ شاعر کا منصب وقائع نگاری، نعرہ بازی سے بہت بلند ہے۔ اس کے لہجہ میں تمام زمانوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔

کتنے ادوار کی گم گشتہ نوا

سینہء نے میں چھپا دی ہم نے

انسان خالق کائنات کی وہ واحد مخلوق ہے جو خلق کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔ جب انسان خالق بنتا ہے تو وہ مقام حاصل کر لیتا ہے جسے اقبال نے خدا کا ہمکار قرار دیا ہے۔ خود اقبال نے اسی بات کو یہ لاجواب شعری اظہار عطا کیا ہے :

تو شب آفریدی چراغ آفریدم

سفال آفریدی ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار و راغ آفریدی

خیابان و گلزار و باغ آفریدم

بعض لوگوں نے فلسفی کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے ایک ایسے نابینا شخص سے تشبیہ دی ہے جو تاریک کمرے میں ایک کالی بلی کو تلاش کر رہا ہو جو وہاں موجود ہی نہ ہو۔ یہ صرف کم فہم لوگوں کی سوچ کا انداز ہے کہ وہ جانی پہچانی چیزوں سے پرے دیکھنے کا یارا نہیں رکھتے اور یافت پر ہمیشہ مطمئن اور قانع رہتے ہیں جبکہ ایک سچا تخلیق کار ان چیزوں کی تلاش کر رہا ہوتا ہے جن کے ملنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ تاریک راہوں کا مسافر ہوتا ہے اور اگر خوش بختی اس کا ساتھ دے تو وہ ایسی چیزیں خلق کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو دوسروں کی نظر میں ناممکن ہوتی ہیں۔ مولانا روم نے کیا خوب کہا ہے :

دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر

کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست

گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما

گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست

یعنی اسی چیز کی تلاش میں نکلنا جو ڈھونڈھنے سے بھی نہ ملتی ہو بڑے حوصلہ مندوں کا کام ہے۔ نا موجود کو وجود میں لانا ہی کار تخلیق کہلاتا ہے۔ لیکن ایسا اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب وہ نامعلوم کی جستجو کا حوصلہ رکھتا ہو۔ سیمرغ کی تلاش میں نکلنے والا ہر پرندہ اتنا خوش قسمت نہیں ہو گا کہ وہ سیمرغ تک رسائی بھی حاصل کر سکے مگر رسائی صرف ان کا مقدر ہو گی جو اس جوکھم بھرے سفر پر نکلنے کاحوصلہ رکھتے ہوں۔ ناصر نے اپنے اس عزم کا اظہاریوں کیا ہے :

”درست ہے کہ بادل سمندر سے اڑ کر آتے ہیں لیکن مجھے تو ان غیبی پرندوں کے پنکھوں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے جو قحط زدہ زمینوں کی فریاد سن کر ان سفید ریشم کے گالوں کو اپنی چونچوں میں دبا کر لاتے ہیں اور فضا میں یوں چھوڑ دیتے ہیں کہ ان سے ایک سمندر پیاسی زمین پر بہہ نکلتا ہے۔ چیلوں اور بادلوں کی آنکھ مچولی بھی شیشے میں اتاری تو کیا، اپنا عزم تو یہ ہے کہ ان غیبی پرندوں پر جال ڈالو۔ “ (ایضاً، ص ص 331۔ 32 )

جو غیب میں ہے اسے منصہ شہود پر لانا ہی سچے تخلیق کار کا منصب ہے۔ ناصر نے پہلی بارش اور سر کی چھایا میں بالخصوص یہی تخلیقی کارنامہ انجام دیا ہے۔

بیسویں صدی میں آرٹ کے ایک عظیم مورخ ارنسٹ گومبرخ نے ایک بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ تشکل کو تقابل پر اولیت حاصل ہے (Making comes before matching) یعنی اولاً کوئی چیز تخلیق ہو گی پھر اس کا اس کی روایت کے دوسرے موجودات سے تقابل کیا جائے گا۔ اگر کوئی موجود ہنر وری کے روایتی تقاضوں کو بتمام و کمال پورا کر رہا ہو اور ان میں کچھ اضافہ بھی کر رہا ہو تو اسے بجا طور پر تخلیقی پیش رفت قرار دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑا تخلیق کار اپنا سخت گیر محتسب خود ہوتا ہے۔ وہ اپنے کام پر بار بار نظر ثانی کرتا ہے۔ ناصر کاظمی بھی اپنا نقاد خود تھا۔ اس لیے وہ اپنے کلام پر نظر ثانی کرتا تھا اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا۔ اس کا کلام جو رسائل و جرائد میں شائع ہوا اور بعد ازاں اس کی کتابوں میں شائع ہوا وہ حذف و ترمیم کی کئی منازل سے گزر چکا تھا۔ اور وہ اس معاملے میں تنقید و تحسین کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ ایک بار ناصر نے ریڈیو مشاعرے میں اپنی وہ غزل سنائی جس کا پہلا مصرع ہے : گلی گلی میری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ریڈیو کے مشاعرے میں سامعین نہیں ہوتے بلکہ صرف شعرا ہی ہوتے ہیں۔ اس غزل کے جس شعر پر ناصر کو دوسرے شعرا سے سب سے زیادہ داد ملی، بالخصوص قتیل شفائی صاحب سے، وہ یہ ہے :

ایک یہ وقت کہ تو نے مجھ کو دیکھتے ہی منہ پھیر لیا

ایک وہ دن جب تو نے میرے پاؤں میں رکھا تھا آنچل

اب ناصر تحسین سخن شناس سے بھی متاثر نہیں ہوا اور اس نے نظر ثانی کرتے ہوئے یہ شعر غزل سے نکال دیا۔ اگر غور کیا جائے تو اس کا یہ فعل بالکل درست ہے کیونکہ شعر میں ایک ظاہری حسن تو ہے مگر اس کے نتیجے میں جو تصویر بنتی ہے وہ اخلاقی اعتبار سے قطعاً خوش کن نہیں ہے۔ جبکہ ناصر نے شاعری میں اعلی ادبی اقدار ہی نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بھی مکمل پاسداری کی ہے اور اس طرح انسانی تہذیب و ثقافت کو باثروت بنایا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5