آج رات کے بے نوا مسافر ناصر کاظمی کا یوم پیدائش ہے


کسی فنکار کی تخلیق کو سمجھنے کا یہ کوئی معیار نہیں کہ وہ اس کی کس داخلی کیفیت کا اظہار ہے۔ ہر کامل تخلیق اپنے خالق سے ماورائیت (transcendence) کی حامل ہوتی ہے۔ خالق کائنات اسی بنا پر کامل ترین خالق ہے کہ ہم اس کائنات کو خالق کو درمیان میں لائے بغیر بھی سمجھ سکتے ہیں جیسا کہ جدید سائنس میں اس کا اظہار ہوا ہے۔ انسان بھی اسی وقت خالق بنتا ہے جب وہ اس ماورائیت کے حصول میں کسی حد تک کامیاب ہو جاتا ہے۔ تخلیقی فنکار اور سائنسدان اپنے کام میں اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل جاتے ہیں اور بالواسطہ طور پر اپنی ذات کی نشوونما بھی کرتے ہیں۔

ادب و فن کی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ بڑے تخلیق کاروں نے اپنی تخلیقی کاوشوں میں ایسے تجربوں کو کامل فنکارانہ چابک دستی سے پیش کیا ہے جو ان کے جسم و جان پر کبھی بیتے نہ تھے۔ یہ ایک عام حقیقت ہے کہ بعض اوقات فن کار کا کام اس کمی کی تلافی ہوتا ہے جو اس کی ذات میں ہوتی ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال مشہور جرمن موسیقار رچرڈ واگنر (Richard Wagner) ہے جس نے اپنا مشہور نغماتی اوپرا Tristan and Isolde لکھنے کا فیصلہ کیا تو اس نے ایک دوست کے نام خط میں تحریر کیا: ”چونکہ میں زندگی میں محبت کی حقیقی مسرت سے ہم کنار نہیں ہوا، اس لیے میں اس خوبصورت خواب کی یاد میں ایک ایسی یادگار تعمیر کرنا چاہتا ہوں جس میں ابتدا سے انتہا تک محبت کو درست طور پر بیان کیا جائے۔ “ گویا اس کا یہ شاہکار اس لیے تخلیق نہیں ہوا کہ وہ محبت کے تجربے سے گزرا تھا بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اس تجربے سے شادکام نہیں ہوا تھا۔

یہ درست ہے کہ کسی انسان کے لیے مکمل ماورائیت کا حصول شاید ممکن نہ ہو۔ مگر آپ بیتی کو جگ بیتی بنانا ہی دست ہنرور کا کمال ہے۔ اسی بات کو ناصر نے خود یوں بیان کیا ہے کہ ”ایک آواز ہزاروں کی آواز بن سکتی ہے یا نہیں“ (دیباچہ ’برگ نے‘ )۔ اسی طرح میر کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتا ہے : ”کسی فن پارے کو تاریخی دستاویز کے طور پر دیکھنا درست نہیں لیکن اگر شاعر کا تجربہ وسیع ہو تو اس کی شاعری بھی اپنے زمانے کی تصویر بن جاتی ہے۔ “ (ایضاً، ص 103 )

کسی کی ذاتی واردات سے بھلا کسی دوسرے شخص کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے سوائے اس صورت کے کہ شاعر کی واردات قاری کو اپنے جسم وجاں پر بیتنے والی واردات دکھائی دے۔ فن کی تحسین و تنقید کے لئے اصل سوال تو یہ ہے کہ فنکار نے اپنے فن کی روایت میں کیا نیا اضافہ کیا ہے۔ کیا اس کی کاوش پہلے سے موجود معیارات پر پورا اترتی ہے؟ کیا وہ ان معیارات کو بہتر بنانے اور کامیاب ہوا ہے؟

انہیں وسعت دینے میں اردو شاعری میں کسی شاعر کے مقام و مرتبہ کا تعین اس بات سے ہو گا کہ آیا وہ میر، غالب اور اقبال کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو سکتا ہے ; میرا خیال ہے کہ اقبال کے مابعد کی شاعری میں ناصر ہی وہ شاعر ہے جو یہ حوصلہ کرنے کا یارا رکھتا ہے۔ اردو شاعری کی اعلیٰ ترین روایت میں اپنا مقام پیدا کرتے ہوئے اس نے اسے نئے امکانات سے بھی روشناس کیا ہے۔ ناصر کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے وہ آیت یاد آتی ہے جس میں کلمہ حق کو ایسے شجرہ مبارکہ سے تشبیہ دی گئی ہے جس کی جڑیں زمین کی گہرائی میں پیوست ہوتی ہیں اور شاخیں آسمان تک بلند ہوتی ہیں۔ ناصر کی شاعری کی جڑیں بھی اردو شاعری کی روایت میں ہیں لیکن اس کی بلند و بالا شاخیں ہمیں نئے اور ان دیکھے جہانوں کا پتہ دیتی ہیں۔

اگر ہم ناصر کاظمی کے معجزہء فن اور اس کی تخلیقی اپج کا صحیح ادراک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس عصری صورت حال کا جائزہ لینا ہو گا جس کا ناصر کاظمی کو سامنا تھا۔

ناصر کاظمی نے میر پر گفتگو کرتے ہوئے ایک فقرہ کہا تھا کہ اس کی ناموس فن کو ہوس نے غارت نہیں کیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناصر نے یہ فقرہ میر کے بارے میں نہیں خود اپنے متعلق کہا تھا۔ ا گر ہم ناصر کے گرد و پیش کے ادبی اور فکری ماحول پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ وہ اپنے دور کا واحد بڑا اور سچا شاعر ہے جس نے شاعری کو غیر شعری مقاصد کے حصول کے لئے استعمال نہیں کیا۔ ناصر کاظمی نے جس فکری ماحول میں پرورش پائی وہ غلط قسم کے فلسفوں سے مسموم ہو چکا تھا۔ اس دور کے دو نمایاں گروہوں میں ایک تو وہ تھا جس نے آئیڈیالوجی کا پرچم اٹھایا ہوا تھا اور دوسرے گروہ نے جدیدیت کے نام پر روایت کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا تھا۔ آئیڈیالوجی کا نتیجہ یہ تھاکہ شاعر اپنا منصب بھول کر خود کو نئے آنے والے زمانے کا پیغمبر یا نقیب سمجھ رہا تھا۔

ترقی پسندوں نے ادب برائے ادب کا بہت مذاق اڑایا تھا اور اسے محض ذہنی عیاشی قرار دیا تھا۔ حالانکہ اس کا مقصد صرف اتنا ہے شاعر اور ادیب کی تخلیقی کاوشوں کا اولین مقصد شعری اور فنی اقدار کو بہتر سے بہتر بنانا ہے۔ مگر جب آئیڈیالوجی کا پرچار مقصد بن گیا تو شاعر فنی اقدار کی آبیاری کرنے کے بجائے دھرتی، رنگ، نسل، زبان، عقیدے اور طبقے کی بنا پر بنی نوع انسان میں تفریق پیدا کرنے اور نفرتوں کو ہوا دینے کا آلہ اور وسیلہ بن گئے۔

جدیدیت کے علم برداروں کا حال تو اور بھی برا تھا۔ وہ تمام تر تہذیبی شعور اور روایت کی نفی کرکے پیرس کے جدید ترین فیشنوں کے مطابق ادب و فن تخلیق کرنا چاہتے تھے۔ وہ مغز کے بجائے اسلوب پر فریفتہ تھے۔ وہ اس زعم کا شکار تھے کہ وہ روایت اور ماضی سے ناتہ توڑ کر مستقبل کا ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اس بات سے بے خبر تھے کہ اول تو ادب میں زمانہ ماضی، حال اور مستقبل میں منقسم نہیں ہوتا۔ دوم جس تیزی سے مستقبل ماضی میں تبدیل ہوتا ہے اسی تیزی سے ان کا تخلیق کردہ ادب بھی قصہء پارینہ بنتا چلا جائے گا۔ فیشن کی عمر ویسے بھی بڑی مختصر ہوتی ہے۔ جدیدیت کے علم برداروں کا حال اس دیہاتی سے مختلف نہ تھا جو بڑے شہر کے فیشن کی پیروی کا شوقین ہوتا ہے حالانکہ اس کا ہر نیا فیشن شہر کا متروک فیشن ہوتا ہے۔ انتظار حسین صاحب نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ ناصر اچانک دم کٹے بندروں کا ذکر شروع کر دیتا تھا۔ مگر مجھے تو اس بات پر قطعاً کوئی تعجب نہیں ہوتا کیونکہ اس تذکرہ کی معقول وجوہ گردو پیش میں موجود ہوتی تھیں۔ ناصر نے شاید انہیں لوگوں کے لئے کہا تھا:

نئے پیالے سہی تیرے دور میں ساقی

یہ دور میری شراب کہن کو ترسے گا

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5