آج رات کے بے نوا مسافر ناصر کاظمی کا یوم پیدائش ہے


ناصر کاظمی کی شاعری کا ایک کلیدی استعارہ سفر ہے۔ اس نے اپنے آپ کو ہمیشہ ایک مسافر کے روپ میں دیکھا ہے۔ برگ نے کے دیباچے میں شاعر وہ گیت گانے والا ہے جو ”گاؤں گاؤں، نگری نگری گھومتا پھرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے پہچاننے والے اسے بھاٹ کہتے تھے، موجد اور خالق کا نام دیتے تھے اور اس کے ذریعے دھرتی کا رابطہ آسمانوں سے جا ملتا تھا۔ “ اور دیوان کا اختتام ان اشعار پر ہوتا ہے :

کہیں کہیں کوئی روشنی ہے

جو آتے جاتے سے پوچھتی ہے

کہاں ہے وہ اجنبی مسافر

کہاں گیا وہ اداس شاعر

پہلی بارش تو ہے ہی سفروں کی روداد۔ وہ سفر خارج میں بھی ہیں اور باطن میں بھی۔ ان سفروں کے مقامات میں دوزخ، جنت، سر سبز و شاداب زمینیں اور اجڑے دیار سبھی شامل ہیں۔

وہ ان دیکھی راہوں کا مسافر ہے جو نئے جہانوں کی دریافت کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اسے شعور ہے کہ اس سفر کی کوئی منزل نہیں اس لیے اس کے سنگی ساتھی بھی کچھ منزلوں تک ساتھ دیں گے اور بچھڑ جائیں گے۔ مگر اس کی قسمت میں کسی منزل پر کمر کھولنا نہیں۔

میں تو ایک نئی دنیا کی دھن میں بھٹکتا پھرتا ہوں

تیری مجھ سے کیسے نبھے گی ایک ہیں تیرے فکر و عمل

۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہل دل کے

یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ

اس کے اس بیان پر غور کیجیے تو اس کی اداسی اور تنہائی کا سبب بھی معلوم ہو جاتا ہے :

”ہم لکھنے والے مسافر ہیں، نامعلوم منزلوں کے۔ مگر ہر مسافر کی الگ الگ منزل ہے۔ ہم سب تھوڑی دیر ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں اور پگڈنڈی پر بچھڑ جاتے ہیں اوراکیلے رہ جاتے ہیں اور اداسی ہماری ہم سفر رہ جاتی ہے۔ یہ اداسی کوئی ذاتی اداسی نہیں بلکہ تخلیقی لوگوں کی مشترکہ تقدیر ہے۔ یہ اداسی مایوسی نہیں بلکہ خود آگاہی کی منزل کی طرف پہلا قدم ہے۔ “ (ایضاً، ص 22 )

چونکہ وہ اپنے مقام اور کار منصبی سے مکمل خود آگاہی رکھتا ہے کہ اس کا کام تخلیق کرنا اور نو بہ نو پیکر تراشنا ہے اس لیے اس کے آدرش بھی اونچے ہیں۔

بچپن میں بھی وہی کھلاڑی بنا ہے اپنا میت

جس نے اونچی ڈال سے توڑے زرد سنہری بیر

تم تو یارو ایک ڈگر پر ہمت ہار گئے

ہم نے تپتی دھوپ میں کاٹے کڑے کوس کے پھیر

سر کی چھایا میں ناصر نے اپنی شاعری کو جو وسعت دی ہے اور زبان و بیان کے جو انداز دکھائے ہیں وہ ناصر کے شعری سفر کی ایک حیرت افزا جہت ہے مگر یہ کتاب ابھی تک نقادوں کی توجہ سے محروم ہے۔ یہ کتاب کسی ذاتی واردات کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک جمی جمائی تہذیب کا بیان ہے جس کا استعارہ سورج پور ہے جو آگ کا شکار ہو کر اجڑ جاتا ہے۔ اس کا ملال بھی ہے مگر نواں شہر آباد کرنے کا عزم بھی ہے۔ انسان کو اپنی جنم بھومی اور تہذیب و ثقافت سے پیار بھی ہوتا ہے مگر جب دھرتی نامہرباں ہو جائے اورپاؤں جلنے لگیں تو یہ کہتے ہوئے وہاں سے ہجرت بھی کر جاتا ہے :

چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دھول اڑائے

تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے

اپنی دھرتی کو اگر کسی سبب سے چھوڑنا پڑجائے تو تخلیقی آدمی ایک نئی جنت تعمیر کرنے کا عزم لے کر نئے سفر پر روانہ ہوتا ہے۔ بس پرانی یادوں کی ایک کسک رہ جاتی ہے مگر اسے معلوم ہوتا ہے کہ واپسی کا راستہ مسدود ہو چکا ہے :

اس دھرتی سے میرا ناتہ ٹوٹ چکا ہے

اپنے وقت کا اک اک ساتھی چھوٹ چکا ہے

ناصر کے بہت سے دوستوں نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ میرا بائی، سورداس اور کبیر کا بہت ذکر کیا کرتا تھا اور انہیں اپنی شعری روایت میں شمار کرتا تھا۔ ناصر نے غزل میں تو بہت کم ہندی بحریں استعمال کی ہیں مگر سر کی چھایا میں ہندی دوہوں کی روایت میں بہت اعلیٰ شاعری کے نمونے پیش کیے ہیں۔ ناصر نے برگ نے کے دیباچے میں شاعر کو ایک بھاٹ کے روپ میں دیکھا تھا ”جس کے ہاتھ میں کوئی بہت ہی سیدھا سادا اور رس بھرا ساز ہوتا تھا جس کی دھن پہ اس کے سارے گیت ڈھلتے تھے اور گلے سے باہر نکلتے ہی دلوں میں اتر جاتے تھے۔ “ سر کی چھایا کا ایک کردار حسنی ہے جو کوی بھی ہے اور گن کار بھی۔ وہ طنبورے پر اپنے گیت گاتا ہے :

سانجھ بھئے اک ڈھیر پہ اندھا سادھو روئے

ہم نے نگری چھوڑ دی، ہمیں نہ چھیڑے کوئے

پچھم دیس کے نیل ماں ڈوبن لاگا بھان

اس کی ریکھا دیکھ کے ڈول گئی مری جان

سدھ بدھ ہے مجھے دھوپ کی نا میں جانوں چھاؤں

نا مرا ٹھور ٹھکانا کوئی نا مرا کوئی گاؤں

رت بدلی، آندھی چلی، سوکھن لاگے پات

رنگ برنگی ڈالیاں، روویں مل مل ہات

اور پھر ناری کے ساتھ اس کا یہ مکالمہ ملاحظہ ہو:

حسنی: میں ہوں ایک ستاریا کھو گئی میری ستار

نگری نگری گاتا پھروں، لوگ کہیں گن کار

ناری: گنی ہے تو گن کاری ہے تو کوئی گن دکھلا

سرتی روپ کو من میں بٹھا کے موہن گیت سنا

حسنی: تار طنبورے بن او ناری کیسے گاؤں گیت

اجڑے بن کی باس ہے، سنگت بن سنگیت

ناری: بین نہ باجے تاربن، من باجے بن تار

بین بنا جو گیت سناوے وہی بڑا گن کار

سر کی چھایا کا شاعر عربی اور ایرانی تہذیب کا نہیں بلکہ اپنی اس دھرتی کا ترجمان ہے۔ اس کی شاعری کی فضا، اس کے موسم، اس کے تہواراور میلے ٹھیلے، اس کا رہن سہن، اس کی بولی سب کا تعلق اس زمین کے ساتھ ہے۔ مگر وہ دھرتی کا قیدی نہیں ہے۔

مضمون کی ابتدا میں یہ تذکرہ ہوا تھا کہ ناصر کی شاعری کے بنیادی موتیف اداسی اور تنہائی ہیں۔ مجھے اس بات سے انکار ہے کہ ناصر کی اداسی کا سبب ہجرت کی واردات ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر اس اداسی کا سبب کیا ہے؟

انسان بالخصوص تخلیقی انسان کی اداسی کا سبب جاننے کے لئے ہمیں انسان کے ماضی کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ مذہبی اساطیر میں انسان کا اولین مقام جنت ہے جہاں وہ خوف اور حزن سے پاک زندگی بسر کر رہا تھا۔ اسے سامان زیست بلا جہد و مشقت دستیاب تھا۔ لیکن اس جنت میں جب دو روحوں کا پیاسا بادل پہلی دفعہ گرج کر برسا تو اسی وقت جنت سے نکل جانے کا حکم صادر ہوا۔ جنت سے نکل کر انسان نے خود کو اس دنیا میں ہمیشہ اجنبی محسوس کیا ہے۔ اس گم گشتہ جنت کی یاد انسانیت کے اجتماعی لاشعور میں پیوست ہے۔ اس دنیا میں انسان کی اداسی کا ایک بڑا سبب یہی یاد ہے اور تخلیقی انسان اس جنت کو از سر نو خلق کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5