اردو برائے فروخت


یہاں سب بکتا ہے، کوئی مذہب بیچ رہا ہے تو کوئی حقوق نسواں ایسے میں بھلا اہل اردو کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں، یوں بھی مفت میں سفر، اخباروں میں تصویر اور خودنمائی کے لیے کوئی جواز تو چاہیے۔ تو بس منعقد ہو گئی اردو کانفرنس! ہر سال ہوتی ہے۔ حیران کن طور پر، ہر سال کی طرح اب کی بار بھی وہی پرانے چہرے، بڈھے لکھاری، بوسیدہ خیالات اور اردو کے زوال کے نوحے۔ ان سے کوئی پوچھے آپ سب اردو کے ٹھیکے داروں نے زبان کے فروغ کے لیے کیا تیر مارا؟

آنے والی نسل کو آپ کیا دے کر جارہے ہیں؟ رہا ہوگا آپ کا ماضی شاندار، لکھ ماری ہوں گی درجن بھر کتابیں آپ نے بھی، تو؟ اس میں میرے لیے کیا ہے؟ اردو سیکھنے، سمجھنے اور بولنے والوں کا کیا مستقبل ہے؟ کیا میں اردو میں مضمون لکھ کر پیسے کما سکتا ہوں؟ کتاب لکھ کر اپنا پیٹ بھر سکتا ہوں؟ کیا میں اردو میں سی ایس ایس کا امتحان دے سکتا ہوں؟ کوئی سرکاری فائل اردو میں ہو؟ یا کوئی درخواست اردو میں لکھوں اور شنوائی ہوجائے؟ اگر نہیں تو پھر یہ تماشا کیا ہے؟

جو اردو کے فروغ کے لیے چند ”شرفا“ اکٹھے ہوئے، ان کی اپنی اولادیں اردو جانتی ہیں؟ اردو میں تعلیم لے رہی ہیں؟ کتنی اردو سکھائی انہوں نے؟ کسی نے اپنے بچوں کو اردو میڈیم اسکول میں بھیجا ہو؟ اردو میڈیم تو دور ان پروفیسروں کا کوئی بچہ سرکاری اسکول یا سرکاری درسگاہ میں پڑھتا ہو؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر دوسروں سے کس لیے کہا جارہا ہے؟ عوام کو سچ بتائیں، اس وقت اردو میڈیا میں کام کرنے والوں کا حال بتائیں، ایک کروڑ روپے تنخواہ لینے والے اینکروں کے نام بتائیں اور پھر ان صحافیوں کے چہرے دکھائیں جو تنخواہ کا انتظار کرتے مارے گئے۔

کہتے ہیں جی زبان صرف پیسے بنانے کے لیے نہیں ہوتی، ثقافت اور تہذیب نہ جانے کیا کیا! کون سی تہذیب؟ سڑکوں پر پان اور گٹکا تھوکتی تہذیب؟ یا شاہراہوں پر پیشاب کرتی ثقافت؟

کہتے ہیں سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے، میری تو ہنسی چھٹ جاتی ہے؟ کون سا جہان؟ دماغ خراب ہوگیا ہے کیا؟ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں نوجوان انگریزی، جرمن، اور بہت سی زبانوں کے امتحان اس لیے دے رہے ہیں کہ اس ملک کو چھوڑ کر بھاگ سکیں، وہی ملک جو ان بڈھوں نے اس نوجوان نسل کو سونپا ہے، اور کہتے ہیں دھوم ہماری زبان کی ہے۔

کسی سرکاری جامعہ میں جائیں اور دیکھیں یہ زبانوں اور ثقافتوں کو بیچنے والے ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری گھر بھی خالی نہیں کرتے۔

اپنے ملک میں ایک وفاقی اردو یونیورسٹی بھی ہے، اگر دیکھنا ہے کہ اردو کو کیسے بیچا جا رہا ہے تو کبھی وہاں چلے جائیں، اساتذہ اور طالب علموں کا معیار دیکھیں، یونیورسٹی کا ماحول دیکھیں اور پھر اس درسگاہ سے آتی خبریں تلاش کریں۔ کہانی سمجھ میں آجائے گی۔

تو بات اتنی سی ہے، چند افراد نے اپنے مفاد، اپنی نوکری وغیرہ کے لیے اردو کو خوب بیچا ہے، آج بھی بیچ رہے ہیں۔ نوجوان نسل خدا کرے ان کی باتوں میں نہ آئے۔

یہ ادب وغیرہ اچھے مشغلے ہیں، مگر پہلے اپنا پیٹ بھریں، کوئی ہنر، کوئی کام کی زبان، کوئی دھندا سیکھیں تاکہ آپ مصیبت سے بچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).