I am no one


یہ میرے جامعہ کراچی کے زمانہ طالب علمی کی بات ہے۔ میں نے اطالوی زبان کو بطور مضمون پڑھنا شروع کیا۔ تب جامعہ کراچی کی کلیہ فنون (موجودہ کلیہ سماجی علوم) میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے برابر میں نیا نیا اطالوی لسانی و ثقافتی مرکز قائم ہوا تھا۔ اس ادارے کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں پر تعلیم ایک اطالوی استانی دیتی تھیں جو اطالوی زبان میں پی ایچ ڈی تھیں اور کراچی میں واقع اطالوی قونصل خانے میں ثقافتی اتاشی تھیں۔ یہ ادارہ جامعہ کراچی کا حصہ لگتا ہی نہ تھا۔ یہاں جدید سہولیات بھی تھیں اور اطالیہ میں پڑھنے جانے کے لئے اسکالرشپس بھی موجود تھیں۔

بہرحال اس ادارے میں میرے کافی دوست بنے۔ ان میں ایک ہمارے سینئر فاروق صاحب بھی تھے، فاروق صاحب ایک باریش نوجوان تھے جو سب سے بے حد اخلاق سے پیش آیا کرتے۔ آپ کی زبان سے کبھی کوئی سخت لفظ برآمد نہ ہوتا۔ اطالوی لکچرار صاحبہ بھی فاروق کو بہت پسند کرتی تھیں۔ اس لئے کہ وہ اطالوی زبان بہت بہتر طور پر سیکھ گئے تھے۔

تب 11 ستمبر 2001 نئی بات تھی اور تہذیبوں کے تصادم کا تناظر بڑی شدت سے ساری دنیا کو گھیر رہا تھا۔ ہماری میڈم صاحبہ گو کہ بہت اچھی استانی تھیں مگر ان کے رویوں میں مسلمانوں سے تعصب اکثر ظاہر ہوتا۔ مثلاً وہ ایک سے زائد شادیوں کے تصور پر بھی بہت تنقید کرتیں اور اکثر تو کسی طالب علم کے کسی بھی مستقبل کی کی بات پر ان شاء اللہ کہہ دینے پر اٹک جاتیں۔ ان کی منطق یہ ہوتی کہ ”خدا نے چاہا تو“ ہر بات میں کہنے کی کیا ضرورت ہے، یہ کہو کہ میں یہ چاہتا ہوں۔ خدا کو خلق میں کیا دلچسپی کہ وہ ہر کسی کے لئے کچھ نہ کچھ چاہے گا۔ ”ان کو کوئی بات سمجھانا بہت مشکل کام ہوتا، نہ ہماری انگریزی اچھی تھی نہ اطالوی اور میڈم کی اردو کمزور تھی۔

بہرحال اس ماحول میں ایک باریش اور باشرع لڑکا فاروق اطالوی زبان کے اس مرکز میں بڑی تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور جب اسناد کی تقسیم کی تقریبات ہوتیں تو میڈم فاروق کو ہی آگے کرتیں اور وہ ہی سارے مہمانوں کے سامنے تقریر کیا کرتا۔ مہمانوں میں اطالوی سفارتکار بھی شامل ہوتے۔ یہ منظر بڑا اچھا لگتا کہ 11 ستمبر کے بعد کے ماحول میں اور میڈم کے بعض تعصبا ت کے باوجود بھی فاروق کی راہ میں رکاوٹیں نہ تھیں۔

2005 ء میں فاروق کا شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز مکمل ہوا۔ کچھ عرصہ اس نے اپنے شعبہ میں بطور عارضی استاد پڑھایا پھر اس کو بھی ایک اطالوی اسکالرشپ مل گئی اور وہ روم چلا گیا۔

2013 ء میں واپس آیا اور اطالوی قونصل خانے میں ملازم ہو گیا۔ اطالیہ میں فاروق کی داڑھی باریک ہو گئی اور بعد میں تقریباً مٹ ہی گئی۔ اب فاروق کے اطوار بالکل مختلف تھے۔ فاروق کو اب پاکستان میں کچھ بھی نہ بھاتا تھا۔ اس نے فیس بک پر ایک کور فوٹو لگائی جس میں بہت سے افراد ہاتھوں میں پلے کارڈ لئے کھڑے ہیں جن پر لکھا ہے :

I am Muslim

I am Hindu

I am Cabala

I am Ahmadi

I am Christian

وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ہم سب کچھ ہیں۔ یہ فاروق کے پرانے عقائد اور نظریات سے بالکل 360 درجے الٹ باتیں تھیں۔ فاروق ایک زمانے میں جماعت اسلامی کا حامی ہوا کرتا تھا۔ پھر تبلیغی بنا۔ مگر اب جو بن گیا وہ بہت عجیب تھا۔

خیر اس میں

صوفی نما کیفیت تو زمانہ طالب علمی اور اطالوی زبان میں کامیابیوں سے ہی پیدا ہو ہی گئی تھی۔ پھر بے چہرہ مذہبیت اور آخر میں یہ نظریات ظاہر ہوئے۔

دراصل کسی بھی چیز سے دور سے نفرت کرنا آسان ہوتا ہے اور کسی بھی نظریے یا عقیدے کے ساتھ رہنا اور خود میں توازن رکھنا مشکل۔ جب انسان کا اٹھنا بیٹھنا سب کچھ ہی غیروں میں ہو جاتا ہے تو اس کو ایک نوع کا شاہ رخ خان بننا ہی پڑتا ہے۔ پھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ دوسروں سے فائدے بھی اٹھاؤ اور ان کے ساتھ کسی نوع کا فکری، مذہبی، نظریاتی اختلاف بھی رکھو۔ زندگی کا ہر موقع، ہر لمحہ ایک پیکیج ڈیل ہوتا ہے۔ یہی وہ معاملہ ہے جو بڑے بڑے اشتراکیوں کے امریکا میں بڑے ذوق و شوق سے جذب ہو جانے والے معاملے میں بھی نظر آتا ہے اور لبرل ملاؤں کے معاملے میں بھی عمومی یہی بتدریج سفر ہوا ہوتا ہے۔ کسی بھی نظام سے، کسی بھی طرز زندگی سے، کسی بھی شے سے دور سے نفرت اور تنقید آسان ہے مگر اس کے درمیان رہ کر، اس کے پھل کھا کر، اس پر تنقید تو دور کی بات خود پر اصرار بلکہ اپنی شکل اور شناخت قائم رکھنا بڑا مشکل کام ہے، بہت مشکل۔ اسی لئے لوگ اپنی شکل کھو دیتے ہیں اور نام بھی۔ بچتا ہے محض پلے کارڈ۔

I am Muslim

I am Hindu

I am Cabala

I am Ahmadi

I am Christian

اور

I am no one


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).