مقبول بٹ کی پھانسی کی وجہ انڈین سفارتکار کا قتل بنا تھا؟


علیحدگی پسند کشمیری رہنما مقبول بٹ پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کا یہ شعر اکثر پڑھتے تھے۔۔۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی تو کوئی بات نہیں

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کی معروف تہاڑ جیل کے سابق جیلر اور کتاب ‘بلیک وارنٹ: کنفیشنز آف اے تہاڑ جیلر’ کے مصنف سنیل گپتا کے لیے مقبول بٹ کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما نہیں تھے۔

سنیل کے لیے وہ ایک اعلیٰ درجے کے دانشور تھے جن کے ساتھ وہ اپنی انگریزی بہتر بنانے کی مشق کیا کرتے تھے۔

سنیل گپتا یاد کرتے ہیں ‘جب میں نے پہلی بار مقبول بٹ کو دیکھا اس وقت تک وہ تہاڑ کے قیدیوں میں بہت مشہور ہوچکے تھے۔ کسی کو کوئی پریشانی ہو اور اگر کسی کو جیل سپرنٹنڈنٹ نے میمو دیا ہوتا تو اس کا جواب تیار کرنے کے لیے قیدی یا تو چارلس شوبھراج کے پاس آتے یا پھر مقبول بٹ کے پاس جاتے۔’

جیل میں تنہائی کی قید نہیں

سنیل گپتا بتاتے ہیں ‘ان کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی نرمی تھی۔ ان کا چہرہ گورا چٹا تھا اور وہ ہمیشہ کھادی کا سفید کرتا پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ اگرچہ عمر میں وہ مجھ سے بڑے تھے لیکن جب بھی میں ان کے سیل میں جاتا تو وہ اٹھ کر کھڑے ہو جاتے۔ کوئی بھی قیدی جو جیل میں آتا ہے خواہ اس نے کتنا ہی گھناؤنا جرم کیوں نہ کیا ہو کچھ ہی دنوں بعد وہ ہمیں اپنے کنبے کا حصہ لگنے لگتا ہے۔‘

‘زیادہ تر قیدیوں کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات بن جاتے تھے۔ ان سے تو ہمارا خاص تعلق پیدا ہو گيا تھا۔ جب بھی ہم ان کے پاس جاتے وہ ہم سے بہت اچھی طرح بات کرتے۔ اگرچہ میری پوری تعلیم انگریزی میڈیم میں ہوئی تھی لیکن پھر بھی مجھے انگریزی بولنے میں جھجھک ہوتی تھی۔ مقبول نے ہی مجھے بتایا کہ اس کمی کو کیسے دور کیا جائے۔

‘وہ مجھ سے کہتے کہ اگر آپ ہندی جانتے ہیں تو انگریزی اس کے مقابلے میں آسان زبان ہے۔ اچھے سلوک کی وجہ سے انھیں سزائے موت سنائے جانے کے باوجود بھی قید تنہائی میں نہیں رکھا گیا تھا۔’

کتاب
سنیل گپتا اور سنیتا چودھری کی کتاب بلیک وارنٹ کنفیکشنس آف اے تہاڑ جیلر

سی آئی ڈی انسپکٹر کے قتل کے الزام میں پھانسی

سنہ 1966 میں ایک سی آئی ڈی انسپکٹر امر چند کے قتل کے جرم میں مقبول بٹ کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ جب انھیں سزا سنائی گئی تو انھوں نے بھری عدالت میں میجسٹریٹ سے کہا: ‘جج صاحب، وہ رسی ابھی نہیں بنی جو مقبول کو پھانسی دے سکے۔’

اس فیصلے کے صرف چار ماہ بعد ہی مقبول بٹ نے جیل میں 38 فیٹ لمبی سرنگ کھودی اور دو ہفتوں تک مسلسل پیدل چلتے ہوئے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر بھاگ نکلے۔

وہاں آٹھ سال گزارنے کے بعد وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر واپس آئے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ بارہمولہ کے ہندواڑہ میں ایک بینک کو لوٹ لیا اور بینک منیجر کو قتل کردیا۔

مقبول بٹ
سنہ 1971 میں مقبول بٹ اور ان کے ساتھ اغوا کیے جانے والے انڈین ہوائی جہاز گنگا کے ساتھ

سنہ 1971 میں انڈین ہوائی جہاز کو اغوا کرنے میں کردار

سنہ 1971 میں انڈین ایئرلائنز کے طیارہ ‘گنگا’ کو ‘ہائی جیک’ کر پاکستان لے جانے کا منصوبہ بھی انھوں نے بنایا تھا۔

بی بی سی نے طیارہ اغوا کرنے والے اور فی الحال سرینگر میں رہائش پذیر ہاشم قریشی سے دریافت کیا کہ طیارے کے اغوا میں مقبول بٹ کا کیا کردار تھا؟

ہاشم قریشی کا جواب تھا: ‘اس میں مقبول بٹ کا ہی کردار تھا۔ انھوں نے خصوصی عدالت میں اپنے بیان میں واضح طور پر کہا کہ ہم نے کوئی سازش نہیں کی۔ ہم اپنی قومی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم نے ایسا کیا تاکہ کشمیر کی طرف دنیا کی توجہ مرکوز ہو۔’

‘میں آپ کو 1970 کی کہانی سناتا ہوں۔ ہم ڈاکٹر فاروق حیدر کے کھانے کی میز پر بیٹھے تھے۔ اچانک خبر آئی کہ اریٹیریا کے دو شدت پسندوں نے کراچی میں ایتھوپیا کے ایک جہاز پر فائرنگ کی اور اسے نقصان پہنچایا۔ مقبول بٹ نے جوں یہ سنا وہ اچھل کر کھڑے ہو گئے اور کہا ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

‘گنگا ہائی جیکنگ کی اصل منصوبہ بندی یہیں سے شروع ہوئی۔ کچھ دنوں بعد بٹ صاحب نے کہا کہ اگر ہم آپ کو جہاز اغوا کرنے کی تربیت دیں تو کیا آپ اسے انجام دے پائيں گے؟ میں نے ان سے کہا کہ میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔’

مقبول بٹ
جے کے ایل ایف کے بانیوں میں سے ایک مقبول بٹ بھی تھے

سنہ 1981 میں انڈیا میں ہونے والے ’نام‘ سربراہی اجلاس کے دوران دلی میں بی بی سی کے نامہ نگار مارک ٹلی کو فون پر ایک نامعلوم شخص نے بتایا کہ اس نے وگیان بھون اور اشوکا ہوٹل میں بم لگایا ہے اور اگر مقبول بٹ کو فوری طور پر رہا نہیں کیا گیا تو وہ عمارتیں اڑا دی جائیں گی۔

ایک دن پہلے کانفرنس میں شریک سفارتکاروں کو بھی کیوبا کے سفارت خانے کے لفافوں میں اسی طرح کی دھمکیاں بھیجی گئیں۔

بی بی سی نے اس خبر کو نشر نہیں کیا اور سرکاری ایجنسیوں کو اس کی اطلاع دی۔

اس کے نتیجے میں تہاڑ جیل میں مقبول بٹ کی سکیورٹی بڑھا دی گئی اور ان کو کڑی نگرانی میں رکھا گیا۔

مقبول
انڈین سفارت کار مہاترے کے قتل کے کچھ دنوں بعد مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی

برطانیہ میں انڈین سفارتکار کا قتل

سنہ 1984 میں برطانیہ میں انڈیا کے سفارت کار رویندر مہاترے کو پہلے جے کے ایل ایف نے اغوا کیا اور ان کی رہائی کے بدلے میں مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

جب انڈین حکومت نے انھیں رہا نہیں کیا تو تنظیم نے مہاترے کو مار ڈالا اور انڈین حکومت نے مقبول بٹ کو راتوں رات پھانسی دینے کا فیصلہ کر لیا۔

میں نے ‘بلیک وارنٹ’ کی شریک مصنف سنیترا چودھری سے پوچھا کہ اگر مہاترے کو قتل نہ کیا جاتا تو کیا مقبول بٹ کو پھانسی نہیں دی جاتی؟

سنیترا نے کہا: ‘اس وقت تو قطعی طور پر نہیں۔ ہر رول بک میں لکھا ہے کہ ان کی آخری خواہش اور کنبے سے ان کی آخری ملاقات ہونی چاہیے لیکن انھیں اپنے بھائی سے بھی ملنے نہیں دیا گیا۔ جب وہ سرینگر سے دلی آ رہے تھے تو انھیں ہوائی اڈے سے ہی حراست میں لے لیا گیا۔

‘مقبول بٹ کو پتا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا ہونے والا ہے کیونکہ انڈین حکومت یہ دکھانا چاہتی تھی کہ سیاسی طور پر وہ کچھ کر رہی ہے۔ وہ تہاڑ جیل میں ایک دوسرے معاملے میں سزائے موت کاٹ رہے تھے، لیکن ان کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔’

پھانسی پر کئی سوال

جس طرح مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی اس پر بھی بہت سے سوالات اٹھے۔

مقبول بٹ کے وکیل آر ایم طفیل کہتے ہیں کہ جب ذیلی عدالت میں سزائے موت دی جاتی ہے تو حکومت اس کی توثیق کے لیے ہائیکورٹ سے اپیل کرتی ہے کہ آپ اس کی تصدیق کریں یا اسے مسترد کردیں۔

‘جب ہم نے سپریم کورٹ میں اپیل کی تو ہمارے پاس پھانسی کی سزا سے متعلق ہائی کورٹ کا کوئی تصدیق نامہ نہیں تھا۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ہائی کورٹ نے مقبول کی سزائے موت کو ‘منظور’ نہیں کیا تھا۔’

مصنفین
سنیترا چودھری اور سنیل گپتا بی بی سی کے سٹوڈیو میں

‘ڈیتھ ریفرنس’ پر جج کے دستخط نہیں

طفیل نے مزید کہا ‘جب ہم نے یہ سوال جسٹس چندرچور سے پوچھا تو حکومت نے سبز رنگ کا دو یا تین صفحوں پر مشتمل غیر دستخط شدہ کاغذ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ نے اس کی تصدیق کردی ہے۔ جسٹس مرتضیٰ فضل علی نے اس کی توثیق کر دی ہے۔‘

‘جسٹس فضل علی پہلے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوا کرتے تھے اور وہ کچھ عرصہ سپریم کورٹ میں کام کرنے کے بعد وہاں سے ریٹائر ہوگئے تھے۔ اس سارے عمل کا ایک بھی گواہ نہیں تھا۔ اس وقت جسٹس چندرچور کے منہ سے جو الفاظ نکلے اس نے آج تک مجھے جھنجھوڑ رکھا ہے۔’

‘انھوں نے کہا کہ انھوں نے ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے کسی ڈیتھ ریفرنس پر کبھی دستخط نہیں کیے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر اس دستاویز پر مرتضیٰ فضل علی کے دستخط نہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ اس طرح کے احکامات پر دو ججوں کی رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قتل کے ریفرینس کے لیے ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ بیٹھتی ہے۔ انھوں نے ہماری ایس ایل پی کو منظور کرنے سے انکار کر دیا۔’

مقبول بٹ
پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ سب سے دائیں مقبول بٹ

جے کے ایل ایف کے کاموں کی سزا مقبول بٹ کو

مقبول بٹ کا اگر چہ علیحدگی پسندی کے تشدد میں ہاتھ رہا ہو رویندر مہاترے قتل کیس سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔

ہاشم قریشی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ‘میں سمجھتا ہوں کہ جے کے ایل ایف نے ہمیشہ ‘ایڈونچرزم’ کیا۔ میرے خیال سے مہاترے بے قصور مارا گیا۔ میں نے ہمیشہ اس بات کی مذمت کی ہے۔ اس کے بدلے میں انھیں مقبول بٹ جیسے آدمی کو نہیں دینا چاہیے تھا۔ آپ نے اس میں 13 آدمی لگا دیے۔ یہ پوری طرح سے امان اللہ کا آپریشن تھا۔’

‘مقبول بٹ نے کہا کہ مجھے اس جرم کی سزا دی جارہی ہے جو میری جیل سے 7000 میل دور واقع ہوا اور جس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں۔ یہ مقبول بٹ کے آخری الفاظ تھے۔ مقبول بٹ کی جو پھانسی تھی وہ براہ راست انڈیا کا انتقام تھا۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت ہی نہیں کی۔’

مقبول بٹ
جے کے ایل ایف کے بانی امان اللہ کے ساتھ مقبول بٹ

پڑھنے لکھنے کا شوق

تہار میں مقبول بٹ کے ساتھ ایک سیاسی قیدی کی طرح سلوک کیا گیا۔ انھیں لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔

ان کے ساتھ کام کرنے والے ہاشم قریشی کا کہنا ہے کہ ‘ان کا قد کم سے کم 5 فٹ 10 انچ تھا۔ وہ انتہائی نرم مزاج تھے۔ جب بھی وہ بات کرتے تو ایسا لگتا تھا کہ انھوں نے دنیا کی تمام لائبریریوں کا علم جذب کر رکھا ہے۔

‘جب وہ قوم پرستی، آزادی یا تعلیم اور خواتین کے حق میں غربت اور بیماری کے خلاف بولتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی تمام روشن خیالی کی روح ان میں بس گئی ہے۔’

مقبول بٹ کا بلیک وارنٹ

اگرچہ مقبول بٹ کو ان کی پھانسی سے متعلق پہلے آگاہ نہیں کیا گیا تھا لیکن انھیں اس کا اندازہ ہو چلا تھا۔

سنیترا چودھری نے کہا: ‘جیسے ہی مقبول کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا گیا بلیک وارنٹ لانے کے لیے تہاڑ جیل کے ڈائریکٹر جنرل کو راتوں رات سری نگر روانہ کیا گیا۔ ان کے وکیل کو بھی پھانسی سے کچھ دیر پہلے ہی بتایا گیا۔ ایک اور معاملے میں ان کے کیس پر سماعت جاری تھی وہ جاری تھی۔

‘عدالت کو یہ تک نہیں بتایا گیا کہ مقبول کو کسی اور مقدمے میں پھانسی دی جارہی ہے۔ ان کی پھانسی کے بعد جب عدالت نے ان کے بارے میں استفسار کیا تو بتایا گیا کہ مقبول کو ایک دوسرے مقدمے میں پھانسی دی گئی ہے۔’

ریحان
مقبول بٹ کے وکیل کے ساتھ ریحان فضل

تہاڑ کی قلعہ بندی

مقبول بٹ کی پھانسی سے قبل تہاڑ جیل جانے والی ہر سڑک کو بند کردیا گیا تھا اور وہاں دفعہ 144 نافذ کردی گئی تھی۔

سنیترا چودھری نے کہا: ‘پورا علاقہ ایک طرح کے قلعے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ خدشہ تھا کہ اوپر سے کوئی حملہ نہ ہو۔ ہیلی کاپٹر سے جنگجو نیچے آئیں اور مقبول بٹ کو نکال نہ لے جائیں۔

‘اس وقت خالصتان اور کشمیری علیحدگی پسندوں کی مہم اپنے عروج پر تھی اور ان کی طرف سے ہمیشہ کسی مس ایڈوینچر کا خطرہ رہتا تھا۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جو بین الاقوامی تعاون نظر آتا ہے وہ اس وقت بالکل نہیں تھا۔ اس کے پیش نظر تہاڑ جیل میں سکیورٹی کے بے مثال انتظامات کیے گئے تھے۔’

مقبول بٹ
انڈیا کے طیارے کو اغوا کرنے والے کے ساتھ مقبول بٹ

اپنا پیغام کشمیریوں کے لیے ریکارڈ کروایا

مقبول بٹ کی زندگی کے آخری دن ایک سکھ مجسٹریٹ کو بلایا گیا اور مقبول سے اپنی وصیت لکھوانے کو کہا گیا۔

لیکن مقبول نے لکھنے کے بجائے اپنی وصیت ریکارڈ کرائی۔ گیارہ فروری سنہ 1984 کی صبح انھوں نے آخری بار نماز ادا کی، چائے پی اور پھانسی کے پھندے کی طرف چل پڑے۔

سنیل گپتا بتاتے ہیں: ‘ان دنوں ہالی وڈ کی ایک فلم آئی تھی جس میں ہیلی کاپٹروں کی مدد سے قیدیوں کو بچایا گیا تھا۔ ہمیں محکمہ انٹلیجنس نے متنبہ کیا تھا کہ انھیں بھی اس طرح سے بچایا جاسکتا ہے۔ لہذا ہم بہت محتاط اور چوکنا تھے۔ اس دن مقبول صبح چار بجے کے قریب بیدار ہو گئے تھے۔

‘ان کا چہرہ ہمیشہ چمکتا رہتا تھا، لیکن اس دن وہ تھوڑا سا بجھا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ سکھ مجسٹریٹ کو ریکارڈ کردہ پیغام میں انھوں نے کشمیریوں سے کہا کہ وہ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں لیکن سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہم نے اس پیغام کو آگے نہیں پہنچایا۔

‘میں نے کئی پھانسیاں دیکھی ہیں۔ آخری موقع پر سزائے موت پانے والا قیدی بری طرح سے بےکل ہو جاتا ہے، لیکن مقبول نے موت کو بہت سکون سے قبول کیا۔ جب انھیں کالے کپڑے اور ہتھکڑیاں پہنائی گئیں تو انھوں نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

‘کچھ لوگ سولی پر چڑھنے سے پہلے نعرے لگانے لگتے ہیں، لیکن مقبول نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اس وقت پھانسی دینے والے فقیرا اور کالو دونوں وہاں موجود تھے۔ وہ انھیں پھانسی کے پھندے تک لے گئے۔’

مقبول بٹ
مقبول بٹ اور امان اللہ خان

مقبول کو تہاڑ میں سپرد خاک کردیا گیا

پہلے ہی فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ ان کی لاش ان کے کنبہ کے افراد کو نہیں دی جائے گی اور اسے تہاڑ جیل کے اندر ہی دفن کردیا جائے گا۔

سنیل گپتا بتاتے ہیں: ‘ان کے پاس بہت ساری کتابیں تھیں جو ان کے دوستوں نے انھیں بطور تحفہ دیا تھا۔ ان کے کپڑوں کے علاوہ ان کے پاس ایک قرآن بھی تھا جو وہ ہر روز پڑھتے تھے۔ یہ ساری چیزوں کو حاصل کرنے کی ان کے اہل خانہ نے درخواست دی تھی۔ لیکن ہم نے ان کی بات نہیں مانی۔

‘لیکن یہ فیصلہ جیل سپرنٹنڈنٹ کا نہیں تھا۔ یہ فیصلہ اعلیٰ سطح پر لیا جاتا ہے۔ اس کا فیصلہ وزیر داخلہ یا وزیر اعظم نے کیا تھا۔ وہاں سے یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ ان کی لاش ان کے اہل خانہ کے حوالے نہ کی جائے کیونکہ علیحدگی پسند اس کا غلط استعمال کرسکتے ہیں۔

‘یہ تہاڑ جیل کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ جہاں انھیں پھانسی دی گئی اسی کے ساتھ ایک قبر کھود کر انھیں دفن کر دیا گیا۔’

سنیل گپتا کو اس بات کا علم نہیں کہ مقبول بٹ کی چیزوں کا کیا ہوا؟

لیکن انھیں یہ پتا ہے کہ ان کی کتابیں جن ژاں پال ساتر اور ول ڈورنٹ کی لکھی ہوئی کتابیں شامل تھیں وہ تہاڑ جیل کی لائبریری کا حصہ بن گئیں۔

آنے والے برسوں میں جس کسی نے بھی اس کتاب کو لائبریری سے لیا ہو گا اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کتابوں کا اصل مالک کون تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp