رسموں کی قیدی کہانی


مجھے کبھی کبھار حیرت ہوتی ہے جو لڑکی اس ملک میں یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرنے کے لئے باآسانی پہنچ جاتی ہے، اینڈرائڈ موبائیل استعمال کر سکتی ہے، بنا روک ٹوک باہر آجا سکتی ہے، جینز پہن سکتی ہے، سیمینار، میلے، مالز، بازار، ہوٹل اور بالخصوص مخصوص دن میں بینر اٹھا کر روڈ پر آ سکتی ہے اسے کوئی معاشی مسئلہ درپیش نہیں ہے، اور اکیلے روانگی واپسی پر نا وہ کاری ہوتی ہے، نا اس کے پاوں میں زنجیر ڈالی جاتی ہے، نا اس کے بال نوچے جاتے ہیں، نا اس کے جسم پر تشدد کیا جاتا ہے، نا ہی اسے پنچائت میں رسوا یا سنگسار کیا جاتا ہے تو اس ملک میں وہ عورت شکر ادا کرے اور خدارا اسے چاہیے کہ وہ ٹھل، جیکب آباد، گھوٹکی، شکارپور، سکھر، عمرکوٹ، بدین، جام پور، راجن پور، شہداد کوٹ، لاڑکانہ، اوستہ محمد، دادو، نوابشاہ، بلوچستان کے پی کے کے پسماندہ شہروں کی عورت کو دیکھ کر آزادی کا احساس کر سکتی ہے۔ اور شکرانے ادا کرے کہ رسموں کا جبر اس سے کوسوں دور ہے اگر وہ عورت کچھ کر سکتی ہے تو اس رسموں کی زنجیر کو پگھلانے میں ان خواتین کی مدد کرے۔ اگر کچھ نہیں کر سکتی تو آزادی کے نام پر ان کے ساتھ مذاق نا کرے۔

وہ مجھے نیم پاگل لگتی تھی۔ اس کے پرانے بلوچی کپڑے اس کا ایک بازو کندھے سے کلائی تک تین جگہ سے پھٹا ہوتا تھا۔ اس کی قمیض دونوں کندہوں کی جگہ گلی ہوتی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ کوئی وزن اٹھانے سے گل گئی ہو، کیوں کہ اس گلے پھٹے کپڑے کے نچے کندہے کی کھال پر کالے نشان ہوتے تھے۔ ہاتھ پاوں پھٹے ہوئے۔ دونوں پیروں میں مختلف قسم کی ٹوٹی ہوئی جوتیاں، بکھرے گرد آلود بال، ناک کی نتھلی میں مٹی چڑہی ہوتی تھی۔ کانوں میں دس دس چاندی جیسی سفید بالیاں، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، بنجر زمین کی طرح پھٹے ہوئے ہونٹ، گال ایک اجڑی ہوئی بستی کی طرح یہ چلتی پھرتی روح تھی۔

میں اینٹوں کے بٹھے پہ جایا کرتا تھا، جس پر یہ پیشگی کے عوض کام کرتی تھی۔ منشی کہتا تھا کہ یہ اس کی سات سال کی بچی یہ دونوں گدھے پر اینٹیں اٹھاتی ہیں۔ پیشگی کی رقم اس کا شوہر لے گیا ہے۔ یہ مجھے گھریلو تشدد کی شکار عورتوں کی طرح چڑ چڑی نفسیاتی مریض لگتی تھی۔ میرا تو ہر ہروز کا آنا جانا تھا،

میں وہاں سگریٹ سلگاتا تھا اور یہ وہاں آجاتی مجھسے سگریٹ مانگتی۔ میں اسے سگریٹ سلگا کر دیتا وہ وہاں بیٹھ کر کش لگاتی۔ گدھے کے ساتھ چڑ جاتی اسے مارتی اور جب غصے ہوتی تو اپنے ہاتھ کو انگوٹھے کی جڑ پر کاٹتی۔ اسے اس جگہ بھی اپنے کاٹنے کے کالے نشان تھے۔ آہستہ آہستہ وہ مجھسے باتیں کرنے شروع ہوئی۔ وہ اپنی مخصوص زبان میں کوئی الفاظ بولتی جو مجھے سمجھ نا آتے خیر ایک دن پوچھ لیا، کہ یہ کیا کہتی ہو؟ کچھ ٹائم خاموش رہی اس کے بعد ہمت کر کہ بولی۔

”میں باپ کے جرموں کی سزا کاٹ رہی ہوں“ اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک کر اس کے چہرے کی جھریوں میں تحلیل ہوگیا۔ اور یہ چلی گئی۔ دوسرے دن پھر جب میں وہاں پہنچا منشی نے چائے بنوائی ہم چسکیاں لے رہے تھے کہ یہ وہاں پہنچی اور سگریٹ مانگا۔ میں نے اسے سگریٹ سلگا کر دیا۔ مجھے پوری رات اس کے یہ الفاظ جگاتے رہے تھے۔ جیسی ہی موقع جانا اس سے وضاحت مانگی، میں نے پوچھا کہ یہ کیوں کہتی ہو؟

اس نے کہا، میں ”ونی“ میں آئی تھی۔ میرا باپ مجرم تھا۔ بابا نے میرے شوہر کے باپ کا قتل کیا تھا۔ پنچائت لگی، جرگے نے بابا کو مجرم قراردیا۔ پنچائت نے میرے باپ پر جرمانے میں بیٹی کا رشتہ دینے کا فیصلہ کیا۔ بابا بھری پنچائت میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور سینے پر ہاتھ مار کر کہا کہ، کہ میں پنچائت کا مان رکھوں گا۔ میں اپنی بیٹی ونی میں دوں گا،

”میری زندگی میں زہر ڈال کر فریقین گھی شکر ہوگئے تھے“

امی تنکوں کی دیوار جو مھمان خانے اور گھر کے درمیاں تھی اس کو کان لگائے کھڑی تھی۔ اس دن میں معاملات سے بے خبر امی کو حیرت زدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی، جیسے وہ جانتی ہو کہ کیا ہونے والا ہے۔ امی کافی دیر برتنوں سے بھری کٹوری اٹھائے گھڑی تھی، یوں اچانک مبارک باد کی آوازیں گونجنے لگیں۔ امی گھر کی طرف قدم بڑہانے لگی، بھائی مٹھائی لے کر گھر کی طرف دوڑتا ہوا آیا۔ بھائی نے امی کو کچھ بتاکر اسے منہ کھولنے کو کہا۔ امی وہ بات سن کر ششدر رہ گئی ایسے لگا اس نے اپنی چیخ دانتوں میں دبوچ لی تھی۔ اس ہاتھ سے برتن گرگئے، بھائی نے زبردستی مٹھائی منہ میں ڈالی، مٹھائی بند دانتوں کی دہلیز پار نا کر سکی تھی اور زرے زرے ہوکر ہونٹوں سے باہر گرتی رہی۔

میری قیدی ماں نے بھی چپ کا تالا لگادیا تھا، وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ کچھ دن بعد میں ”ونی“ کی رسم میں چھوٹی دلہن بن کر بڑے دولہے کے گھر پہنچ گئی تھی۔ سسرال میں کسی کے چہرے پر کوئی خوشی نہیں تھی، نا کوئی دلہن کے لیے نین بچھا رہا تھا، کسی لہجے میں مٹھاس نا تھی سب نفرت سے دیکھ رہے تھے۔ میں اتنی چھوٹی تھی کہ اندازہ نہیں لگا پا رہی تھی کہ کیا ہوا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ یا پھر جو کچھ ہوا ہے اس میں میرا کیا قصور ہے۔ رات ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ میرے باپ کا جرم کتنا سنگین تھا، جس کی مجھے اتنی بڑی سزا ملی۔

میری سننے والا کوئی بھی نا تھا، میں ”ونی“ میں آئی تھی میں اپنے باپ کے ہاتھوں انجام ہوئے اس جرم کی سزا کاٹنے پہنچی تھی جس میں زرے برابر بھی میرا قصور نہیں تھا۔ پہلے دن سوچتی رہی کہ بابا نے مجھے پیدا ہوتے ہیں کیوں نہیں مار دیا یا پھر بچیاں پیدا ہی کیوں ہوتی ہیں؟ یہ وہ سوال تھے جو پہلے دنوں گردش کرتے رہتھے۔ میرا بچپن مسل دیا گیا تھا، قید با مشقت میں ایک وحشی کا جنسی تشدد، اس کی ماں کے طعنے، اس کے گھر کا کام، اس کے گھروالوں کے رویے میں کبھی بھوک ہی نا لگتی، یا پھر میرے لیے روٹی ہی نا بچتی، سالوں بعد گھر جاتی ہوں، ماں مجھسے نظریں چرا کر پوچھتی ہے، ”کیسی ہو مومل؟

میری بیٹی؟ ”میں کہتی ہوں امی! اس سماج میں کوئی لڑکی بیٹی نہیں ہوتی، میں تو والدین کے کرموں کی سزا کاٹنے والی قیدی ہوں، میں بھائی، باپ کے غلطیوں، جرموں کا کفارہ ہوں، امی میں بیٹی نہیں ہوں! میں بابا کے جرم کی سزا کاٹنے کے لئے پیدا ہوئی۔ یہ کہہ کر اور وہ اس کیفیت میں آگئی تھی، اس نے بہت زور سے اپنے انگوٹھے کی جڑ کی جگہ گاٹا اور وہاں سے روانی ہوگی۔ آج کے لئے اتنا کافی تھا میں بھی وہاں سے روانہ ہوگیا۔

دو دن بعد اسی جگہ پہنچا، یہ مجھے دیکھ کر گدھے کو درخت کے ساتھ باندھ کر میرے پاس پہنچ گئی۔ صاحب سگریٹ دینا، میں نے اسے پیکیٹ نکال کر سارے سگریٹ اسے دے دیے۔ اس نے کہا اتنے نہیں بس مجھے ایک سگریٹ چاہیے، میں نے کہا کہ نہیں سب رکھ لو! کام آئیں گے۔ اس نے کہا کہ نہیں صاحب، کبھی ایسی عادت نہیں ڈالی جو پوری ہی نا ہو، یہی بس آپ کبھی آجاتے ہیں آپ منع نہیں کرتے ورنا میں کہاں سے لاوں گی؟ رہنے دیں!

اسے سگریٹ سلگا کر دیا اس نے کش لگا کر پوچھا،

کیا سوچ رہے ہو؟

نہیں کچھ نہیں، میں نے جواب دیا،

اور پھر موقع جانا اور کہہ دیا کہ

دیکھو! میں سوچ رہا ہوں کہ معاملے کا پس منظر کچھ بھی ہو لیکن جس بندے کے لئے تم گھربار چھوڑ کر آئی ہو اسے تمہارا سہارا بننا چاہیے تھا۔ تم اس سے اتنی خوفزدہ ہو۔ تم اتنا کچھ کرتی ہو۔ انسانیت کے ناتے اسے تمہارا سہارہ بننا چاہیے۔ تمہیں پیار دینا چاہیے۔

یہ سب سن کر اس نے شکستہ نظروں سے دیکھا اور کہنے لگی۔

صاحب! پیار ہوتا کیا ہے؟ مجھے ہمیشہ اس سے ڈانٹ ہی پڑی، غریبی کے سبب اپنے گھر میں چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے بدلے ڈانٹ پڑتی تھی۔ بڑی ہوئی تو پنچائت نے قید با مشقت کی سزا سنا کر اس وحشی حوالے کیا۔ میری آدہی زندگی تو اپنے شوہر اور اس کے گھروالوں میں رحم اور انسانیت تلاش کرتے گزری۔ پیار تو کوئی اور چیز ہوگی جسے میں نہیں جانتی۔ میں غلط نا ہوتے ہوئے بھی آج تک اس کے غیظ و غضب کا نشانہ بنتی رہی ہوں۔ صاحب! میں بھی انسان تھی ناں؟

میرا بھی دل کرتا تھا کہ فرمائشیں کروں۔ جیسے بیوی کوئی فرمائش سوچ کر شوہر کے قریب آکر بیٹھتی ہے۔ تھوڑا سا مسکرا کر بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ کئی دفعہ یہ سوچ کر اس کے ساتھ بیٹھنے کی ناکام کوشش کی۔ جیسے کہہ سکوں کہ لال رنگ کی چوڑیاں اچھی لگتی ہیں۔ مجھے سرسوں کے پھول پسند ہیں۔ مجھے آم کا اچار پسند ہے۔ مجھے اجرک اچھی لگتی ہے۔ کبھی مجھے میری چھوٹی چھوٹی خواہشیں لاکر دو۔ لیکن نہیں۔ میرے ہونٹ مسکرانے کے لئے نا مانے۔

آنکھوں نے بھی مہکنے سے انکار کردیا تھا۔ میرا ضبط میرا ساتھ چھوڑ جاتا۔ جب کبھی اسے کوئی احساس دلانے کی کوشش کرتی وہ کاٹنے کو دوڑتا۔ اسے کے لہجے نے ہمیشہ تکلیف دی۔ میں اپنی حسرتوں کو ناکامی کی چادر میں لپیٹ کر چلی جاتی تھی۔ جیسے کوئی خانہ بدوش صبح ہوتے ہی اپنا گھربار باندھ کر چلے جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر اس کی آنکھوں سے پھر آنسو ٹپکنے لگے اور اس کے چہرے کی بنجر زمین جیسی جھریوں میں تحلیل ہوگئے۔ اور اٹھ کر چلی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).