ایسا تو جانور بھی نہیں کرتے


کچھ دن پہلے ڈاکٹروں نے مل کر وکلاء پر بہیمانہ تشدد کیا آج وکلاءاپنا بدلہ لینے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہسپتال پہنچ گے و کلاء نے ہسپتال کو تہس نہس کر کے رکھ دیا وہاں موجود مریضوں کا بھی خیال نہیں کیا۔ دنیا میں بدترین حالات میں بھی ہسپتالوں پر حملے نہیں کیے جاتے، میدان جنگ میں بھی مریضوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور ہمارے ہاں اپنی ذاتی رنجش کی بنا پر ہسپتالوں پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ کیا ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔

ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں۔ ہسپتال میں ایک تشویشاک ناک حالت کی شکار لڑکی کا آکسیجن ماسک اتار کر پھینک دیاجاتا ہے اور وہ لڑکی تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیتی ہے اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا، ہم اپنی انا اور تکبر میں اس قدرغرق ہو چکے ہیں اپنے سامنے والے کو انسان ہی نہیں سمجھتے، یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے اس طرح کے ہزاروں واقعے ہمارے سامنے ہیں۔ کچھ دن پہلے شکرگڑھ کی ایک نہتی عورت پر ان درندوں نے تشدد کیا اگر اس واقعے میں ملوث افراد کو سزا دی جاتی تو آج ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

یہ کیسے انسان ہیں جن کے سامنے ستتر سالہ بزرگ خاتون ہوں اور انہیں شرم تک نہیں آتی یہ کیسے انسان ہیں جو مریضوں سے ان کی ڈرپس تک اتار لیتے ہیں اور انہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، یہ کیسے انسان ہیں جو مریضوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ تمہاری لڑائی کسی اور سے ہے ناکہ ان مریضوں سے جو بچارے پہلے ہی بیماری کے ستائے ہوئے ہیں۔ کیا ان لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف نہیں ہے، کیا انہوں نے مرنے کے بعد اللہ کو جواب نہیں دینا۔

جن کے سامنے شہری ہاتھ جوڑ کر کہہ رہے ہیں ہمارے مریض دل کے عارضہ میں مبتلا ہیں انہیں مرنے کے لیے تو چھوڑ دیا گیا لیکن ڈاکٹروں تک نہیں جانے دیا گیا، یہ کیسے انسان ہیں جو دوسرے کو انسان ہی نہیں سمجھتے، غنڈہ گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جب بھی جس کا دل چاہے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ جتنا ظلم آج ان لوگوں نے کیا ہے اتنا ظلم تو کوئی جانور بھی نہیں کرے گا، وہاں پر موجود پولیس اہلکار مٹی کے مجسمے بنے یہ سب تماشا دیکھتے رہے کسی کی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ ان درندوں کو روک سکیں۔

کیا پولیس والے عوام کے رکھوالے نہیں ہیں، جو یہ سب ہوتا دیکھتے رہے کیا پولیس والے اتنے مجبور اور بے بس ہیں کہ ان کی موبائل وین جلا دی جاتی ہے اور وہ اس روکنے کی طاقت نہیں رکھتے کیا یہ پولیس والے وہی تو نہیں ہیں جو ان وکیلوں کی ملی بھگت سے عوام کا خون چوستے ہیں ہاں یہ پولیس والے وہی ہیں جن کی ملی بھگت سے ایک سزا یافتہ مجرم تو چھوٹ جاتا ہے لیکن اس کی جگہ ایک غریب کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے۔ یہ کیسا قانون ہے جو ان کالی بھیڑوں کو تو اسلحہ رکھنے کی اجازت دے دیتا ہے لیکن کسی عام شہری کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ اپنے گھر میں رکھ سکے۔

یہ کیسے پڑھے لکھے جاہل ہیں جن کے ہاتھوں عوام، اور حکومتی وزراء محفوظ نہیں؟ کیا اس ملک میں کوئی قانون نام کی کوئی چیز نہیں یا یہ لوگ اس قانون سے بالاتر ہیں۔ یہ معاملہ ختم ہو سکتا ہے جس دن ڈاکٹروں نے وکلاء پر حملہ کیا، اس دن حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ سخت ایکشن لیتی، ملوث افراد کو کٹری سزا دی جاتی، ڈاکٹر یا وکلا، جو بھی ملوث ہوتا، ان کا لائسنس کینسل کر دیتی لیکن حکومت تو غفلت کی نیند سو رہی ہے۔

دنیا مکافات عمل ہے۔ جو بویا تھا آج وہی کچھ یہ حکومت کاٹ رہی ہے۔ عوام بھی اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو اگلے دن بھول جاتی ہے اگر کسی اور پر ظلم ہوتا دیکھتی ہے تو چلتی بنتی ہے، یہ ظلم مجھ پر تو نہیں ہو رہا۔ آج اگر کوئی اور آگ میں جل رہا ہے تو کل کو تمہاری باری آنے والی ہے۔ ظلم ظلم ہوتا ہے چاہیے وہ کسی اور پر ہو یا ہمارے اپنے اوپر، اس کوروکنے کی طاقت اپنے اندر پیدا کرنی ہو گی ورنہ اس طرح درندے تمہیں روند کر چلے جائیں گئے اور تم اسی طرح آنسو بہاتے رہو گے، اور اپنے لاشے اٹھاتے رہو گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).