اس ملک کا ہر شخص اپنے آپ میں ایک شدت پسند ہے!


ہمارے ملک جیسے پسماندہ ملکوں میں جہاں تعلیم مشکل اور مہنگی ہو وہاں ڈاکٹر اور وکیل پیدا ہونا حیرت کی بات ہوتی ہے۔ اگرچہ ان دونوں پیشوں میں کچھ چور بازاری والی بھرتی بھی ہوئی ہے لیکن پھر بھی لوگ ان دو پیشوں کے افراد کو زیادہ پڑھا لکھا سمجھتے ہیں۔ اور یہ لوگ بالخصوص وکیل معاشرے کی کریم مانے جاتے ہیں۔ کالے کوٹ میں ملبوس ان پڑہے لکھے افراد پر معاشرے کا حق اس لیے زیادہ بنتا ہے کیونکہ یہ قوانین جانتے ہیں۔ معاشرے کا حق کیا ہے۔

معاشرے کے فرد کا حق کیا ہے۔ جب پولیس نا سنے تو کیا کرنا ہے۔ رہ گیر کا حق کیا ہے۔ بیڈ پہ پڑے مریض کی آکسیجن کا ماسک اتارنے کی کیا سزا ہے۔ امراض قلب کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہونے کی کیا سزا ہے۔ رویہ کسے کہتے ہیں۔ شدت پسندی کیا ہوتی ہے۔ اور ہنگامہ آرائی کتنی خراب چیز ہے وہ بھی اسی جگہ پر جہاں پہلے حساس نوعیت کے انسان اپنی سانسوں سے لڑ رہے ہوں۔ یہ وکیل سب سے بہتر جانتے ہیں۔ لیکن؟

امراض قلب کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں کون لوگ ہوتے ہیں؟ وہ جنہیں اگلی سانس کا یقین نہیں ہوتا۔ ان کی سانس کی تار کھینچی جائے محض اپنی انا برقرار رکھنے کے لئے۔ معاملہ اس ڈاکٹر کی تقریر سے بگڑا، لیکن فیاض الحسن چوہان کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر جو تحقیقات سامنے آئی ہیں ان میں یہ آیا ہے کہ وکلا کے ساتھ ڈاکٹرز کے معاملات طے پا چکے تھے۔ بار میں یہ میٹنگ چل رہی تھی کہ کیسے ٹالکس کیے جائیں۔ ڈاکٹرز وکلا سے معافی مانگنے کے لئے تیار تھے لیکن ابھی بار کے الیکشن بھی چل رہے ہیں جس وجہ سے ایک گروپ نے بار میں انتشار پھیلایا کہ آپ نے وکلا کو بیچ دیا ہے، آپ نے گھٹنے ٹیک دیے، یہ کیا، وہ کیا، جس سے انتشار پھیلا اور وکلا گفت و شنید منسوخ کر کے ہسپتال کی طرف چڑھ دوڑے۔ یہ شدت پسندی ہے جو اس ریاست کے ہر فرد کے اندر اپنی انا کی صورت اپنی ذات کی صورت اپنے پیشے کی برتری کی صورت اور اپنی طاقت کے نشے کی صورت اور بھی کئی صورتوں می پائی جاتی ہے جس کے نتیجے خراب نکلتے ہیں اور ملبہ نہتے لوگوں پر پڑتا ہے جن کا پہلے بھی کوئی پرسان حال نہیں جیسے کہ آج ہوا۔

لاہور میں آج وکلاء اور ڈاکٹرز کے درمیان تنازع اس وقت شدت اختیار کرگیا جب مشتعل وکلاء کی بڑی تعداد پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے باہر جمع ہوئی۔ گالم گلوچ، نعرے بازی، پتھراؤ، کے بعد وکلا برادری آئی سی یو اور آپریشن تھیٹر میں داخل ہوگئی اور توڑ پھوڑ کی تاہم اس دوران اسپتال کا عملہ اور ڈاکٹرز بڑی مشکل سے جان بچا کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے، اس کے علاوہ وکلاء نے پی آئی سی میں کھڑی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا جب کہ اسپتال کے باہر کھڑے پولیس اہلکاروں کی مجرمانہ غفلت کی انتہا ہے کہ وکلاء کو توڑ پھوڑ سے نہ روکا۔

اور تو اور ریاست مدینہ کی پولیس مزے لے کر سوتی رہی جو چند اہلکار تھے وہ بھی جان بچا کر نکل لیے۔ بھائی صاحب وکلا پانچ کلومیٹر پیدل سفر کر کے پی آئی سی تک پہنچے آپ کہاں تھے؟ جب آپ بخوبی جانتے تھے کہ کلیش پہلے سے چل رہا ہے آپ کو تو ممکنہ جھگڑے سے نمٹنے کے لئے بھی انتظامات کرنے ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس

اسپتال میں وکلاء کی توڑ پھوڑ کے بعد پی آئی سی ملازمین اور وکلا میں تصادم بھی دیکھنے میں آیا اور وکلاء نے پولیس گاڑی کو آگ لگا دی تاہم صورتحال مزید خراب ہونے پر پولیس کی بھاری نفری پہنچی۔ جہاں پولیس کی جانب سے مشتعل وکلاء کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ وکلا صاحبان نے تین گھنٹے تک اشتعال انگیزی کی، کسی نے روکا تک نہیں۔

مختلف ذرائع سے مختلف اعداد شمار ہیں، لیکن اسپتال ذرائع کے مطابق وکلاء کے حملے کے باعث طبی امداد نہ ملنے پر اسپتال میں زیر علاج 6 مریض دم توڑ گئے۔

صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان پی آئی سی کے باہر پہنچے جہاں وکلاء نے انہیں گھیر لیا اور تشدد کیا تاہم فیاض الحسن چوہان نے بھاگ کر جان بچائی۔ وزیر صاحب ایسی صورتحال میں انیل کپور نہیں بنا جاتا۔ آپ پولیس تو لے کر پہنچتے۔ آپ کی پولیس تو یہ تک نہیں جانتی کہ امراض قلب کے انتہائی نگہداشت وارڈ کے قریب شیلنگ نہیں کرنی۔

جھگڑے کا پس منظر ایک ماہ پرانا مسئلہ ہے جو ابھی تک حل نہیں ہو سکا تھا۔ گزشتہ ماہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلاء اور ڈاکٹرز کے درمیان جھگڑا ہوا تھا جس پر وکلاء نے ڈاکٹرز کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے احتجاج کیا جارہا تھا۔ اس کے علاوہ وکلاء نے ڈاکٹرز پر اپنا مذاق اڑانے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا، بعدازاں یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے سنگین صورتحال اختیار کرگیا اور نوبت اسپتال پر وکلاء کے حملے اور مریضوں کے جاں بحق ہونے تک پہنچ گئی۔

ریاست مدینہ میں ایک سال میں سانحہ ساہیوال جیسے واقعے بھی ہوئے۔ کمیٹیاں بھی بنیں، لیکن انصاف نا ملا۔ پرانے پاکستان کا بھی کچھ یہی حال تھا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ میں شدت پسند ہیں۔ ہم اپنے آپ کو بہتر نہیں کر پا رہے۔ ہماری شدت پسندی کو مدنظر رکھ کر اگر کوئی اس ریاست کا مستقبل سوچے تو یقینا اسے تاریکی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).