آپ کا قانون زندہ باد لیکن آئی ابجیکٹ


ماشاءاللہ مذمتوں اورتحقیقاتی کمیشنوں کی دنیا میں عقل کی اندھی قوم یوں اچانک جاگ گئی کہ ساری دنیا حیران رہ گئی۔ وکلاء اورڈاکٹر حضرات کو ایسی نصیحتیں شاید تاریخ میں پہلی بار مل رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ ایسا واویلا مچا ہے کہ جیسے ہم کسی مہذب دنیا کے بہت مہذب شہری ہوں اور ہم نے کبھی قانون کی خلاف ورزی کی ہی نہ ہو۔

قانون کو اصل شکل میں دیکھنے کی حسرت لئے عشروں سے آبلہ پا نکلے لوگ ہمیشہ کے لئے فناء ہوگئے لیکن نہ ان کو قانون کا کچھ فائدہ ہوا اور نہ انہوں نے یہاں قانون نامی چیز دیکھی۔

وکلاء کیا پہلی بار یوں بدمعاشی کے مرتکب ہوئے۔ کیا ڈاکٹرز نے مہینوں سے ہڑتال کرکے یہ ثابت نہیں کیا تھا کہ ہمارے سامنے ٹکنے والا کوئی نہیں۔ ان دو طبقوں کو معاف ہی کرنا چاہیے یہ کب کسی کی مانتے ہیں۔

کالے کوٹ کی حرمت پر آنچ نہ آئے یہی سوچ کر تو بے شمار لوگوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں لیکن آج کل کے کالے کوٹ والوں کے اندر انسان نما حیوانوں نے تو اس معصوم لڑکی کو بھی نہیں بخشا جو پانچ بھائیوں کی اکلوتی تھی۔ ان قاتلوں کے لئے کیا کوئی تحقیقاتی کمیشن ہی کافی ہوگا؟

مذمت کرکے آج تک ہم نے بے شمار کامیابیاں سمیٹی ہیں میں سمجھتا ہوں اس بار بھی سزا اور قانون کی بجائے مذمت ہی سے کام چلا لیتے ہیں کیونکہ ڈاکٹرز بھی تو بمطابق ان کے دودھ کے دھلے ہیں ان سے تو کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی یہ سیارہ زمین پر اور خاص طور پر پاکستان میں رہنے والا وہ طبقہ ہے جو خود کو کبھی غلط کہہ ہی نہیں سکتا

میں تو سمجھتا ہوں تعلیم کو بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور انسانیت پر بات کرلیتے ہیں۔

جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی کہاوت جس فطین کے ذہن سے بھی نکلی ہے کمال کیا ہے اس نے۔ اس کہاوت کی جڑیں ہمارے ملک میں اتنی مضبوط ہوچکی ہیں کہ ایمان، اتحاد، یقین اور تنظیم کا تو کباڑہ بن چکا ہے۔

وکلاء اور ڈاکٹرز نے جو کیا سو کیا سوچنے کی مگر بات یہ ہے کیا یہ سب کچھ پہلی بار ہورہا ہے جو ایمانی جذبے سے سرشار انسانوں کے ایک بڑے جم غفیر کے آنسو آج نکل رہے ہیں۔ زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے اور شاید ہماری قومی سزا کا آغاز ہوچکا ہے۔

قانون کی بندھنوں میں بندھے انسانوں کو دنیا کا کون سا قانون یہ اجازت دیتا ہے کہ دل کے مریضوں پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑو، مارا ماری کرو اور پھر فتح و شکست کا کھلے عام ذکر کرو۔ منافقت کی یہ انتہاء واللہ پاکستان کے علاوہ شاید کسی مقبوضہ علاقے میں بھی نہ ملے۔

وکلاء کو چھوڑئیے ان سے تو بات کرنا ہی وقت کا ضیاع ہے اور ستم ظریفی یہ کہ نئے آنے والے ڈاکٹرز مافیا بننے کی کوشش میں لگے دن بہ دن شتر بے مہار بن رہے ہیں۔ کیا صرف یہی ایک نوحہ ہے۔

بے شمار المیے اور بے شمار نوحے ہیں۔ قانون کی بات کرنے والوں نے بزور بازو آج ایک نہتی مریض لڑکی کو دار فانی سے کوچ پر مجبور کیا۔ کیا ہمارا قانون اتنا باہمت ہے جو اب ان پانچ بھائیوں کو تسلی دیں کہ یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے۔

چلو سب مل کر آج مان لیں کہ ہم جانوروں سے بھی بدتر ہیں اور کرہ ارض کے اس حصے سے اگر ہمارا صفایا ہوا تو ہر طرف خوب صورتی بڑھ جائے گی اور دوسری زندہ چیزوں کے لئے زندگی آسان ہوجائے گی۔

آج تعلیم یافتہ قاتلوں نے باوردی ہوکر زندہ ہیں وکلاء زندہ ہیں کے نعرے بھی لگائے ہوں گے۔ کسی نے روکنے اور ٹوکنے کی کوشش بھی نہیں کی ہوگی۔ لیکن پھر بھی ہم زندہ قوم ہیں۔

نسلوں کو سبق دینے کا اس سے بہتر طریقہ شاید ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کو وہی مل رہا ہے جو ان کا فطری حق ہے کہ خود کو بدلنے کی کوشش نہ تو ہم سے پہلے کسی نے کی اور نہ ہم کر رہے ہیں۔

زندہ قوم ہی تو ہیں ہم جو ایک ہی تاریخ زندہ رکھی ہوئی ہے جس میں دن بہ دن صرف حیوانیت بڑھ رہی ہے اور انسانیت کا جنازہ دھوم سے نکل رہا ہے۔

پوری دنیا نے دیکھا حکومت وقت کا ایک بے بس وزیر اپنی جان بچانے کے لئے دوڑ رہا تھا اور قانون کے محافظ ہاتھوں میں ڈنڈے لئے ایسے نظر آرہے تھے جیسے کالے اور سفید کوٹ کی اس جنگ کی امپائرنگ کے لئے آئے ہوں۔ اب کوئی کیا سوچیں کیا کہے۔

بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا قانون زندہ باد لیکن آئی ابجیکٹ۔

کون سا قانون یہاں نافذ ہے اور کس قانون کی بات ہر روز ہوتی رہتی ہے۔ انسان تو یہاں سب ایک جیسے ہیں لیکن مجھے یقین ہے ہماری حرکتیں اور کرتوت ہمارے اردگرد اصل جانوروں کے لئے بھی باعث حیرت ہوگی۔

آپ کو پھر بھی آپ کا قانون ٹھیک لگے تو آپ کا قانون زندہ باد لیکن آئی ابجیکٹ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).