ڈاکٹر اور وکیل: جیسے کو تیسا


یہ آج سے تین ماہ پہلے کی بات ہے میرا ایکسیڈنٹ ہوا اور میں سروسز ہسپتال پہنچ گیا۔ ابتدائی چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ دائیں ہاتھ میں ہیئر لائن فریکچر ہے اور پندرہ دن کے لیے پلستر لگے گا۔ مجھے پلستر کے لیے ایمرجنسی سے او پی ڈی بھیج دیا گیا اور وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ ڈاکٹرز تو ڈاکٹرز ہیں یہاں کا فور کلاس عملہ بھی ایم ایس سے کم نہیں۔ جس سے بھی بات کی ’جس سے بھی اپنی تکلیف کا ذکر کیا اس نے ہی کمال بے حسی کا مظاہرہ کیا اور یوں مجھے تین گھنٹے صرف اس ڈاکٹر کو تلاش کرتے گزر گئے جس نے پلستر کے لیے سلپ پر سائن کر کے دینے تھے۔

ایک دفعہ تو یوں بھی ہوا کہ میں ایمرجنسی میں آرتھو پیڈک ڈاکٹر سے ملا ’یہ دو میل ڈاکٹر اپنے وارڈ کے ساتھ کمرے میں بیٹھے سگریٹ انجوائے کر رہے تھے‘ میں نے ان سے عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب میرا ہاتھ فریکچر ہے ’کیا آپ کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ وہ انتہائی بے حسی سے گویا ہوئے کہ کیا آپ کو نظر نہیں آرہا ہم مصروف ہیں (حالانکہ وہ صرف سگریٹ پینے میں مصروف تھے)۔ میں انجیکشن کے لیے ایک ہاؤس جاب کرنے والی فی میل ڈاکٹر کے پاس پہنچا‘ وہ اپنے موبائل پر مسلسل چیٹ کرنے میں مصروف تھی ’میرے بلانے پر انتہائی سخت رویے میں بولی کہ آپ کو نظر نہیں آتا ہمیں اور بھی کام ہیں‘ آپ بیڈ پر لیٹ جائیں کوئی سسٹر آتی ہے تو انجکشن لگاتی ہے۔

خیر اللہ اللہ کر کے یہ مرحلہ طے ہوا اور میں ہسپتال سے گھر شفٹ ہوا۔ کچھ دن کے بعد میو ہسپتال گیا پلستر کھلنا تھا ’میں اس کے لیے میو ہسپتال کے آرتھو ڈیپارٹمنٹ پہنچا‘ ڈیپارٹمنٹ میں کوئی ڈاکٹر نہ تھا لیکن پانچ ڈاکٹرز سٹاف روم میں گپیں ہانکنے میں مصروف تھے ’میں سیدھا سٹاف روم پہنچا اور عرض کیا کہ ڈاکٹر صاحب میرا فریکچر کھلنا ہے‘ میری اس بارے میں کوئی رہنمائی کریں ’وہ انتہائی کرخت لہجے میں بولے آپ کو اندر کس نے آنے دیا‘ آپ کل صبح آئیں اور او پی ڈی میں رابطہ کریں۔

میں یہ سن کر باہر نکلا تو وہاں کھڑا چوکیدار بولا ”بھائی یہ بہت کمینے ہیں ’سب کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں“۔ قارئین یہ صرف ایک واقعہ ہے‘ میں یقین کریں درجنوں واقعات بتا سکتا ہوں جن میں یا تو میں خود ڈاکٹرز گردی کا شکار ہوا یا پھر کسی غریب کو ان کی بے حسی کی بھینٹ چڑھتے دیکھا اور آج میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ڈاکٹرز عام آدمی کو بالکل بھی انسان نہیں سمجھتے۔ یہ ہسپتالوں میں کرسی پہ بیٹھے خدا ہوتے ہیں اور زیادہ تر مریضوں کو ذاتی کلینک پہ آنے کا مشورہ دے کر گھر بھیج دیتے ہیں۔ میرے ایک دوست اے جی دفتر میں ہیں ’مجھے ایک دن کہنے لگے بھائی ان کی تنخواہ شروع ہی ایک لاکھ تیس سے ہوتی ہے مگر یہ بالکل بھی گوارا نہیں کرتے کہ انہیں ہسپتالوں میں کام کرنا پڑے۔

اب آتے ہیں وکیلوں کی طرف۔ یہ بھی انتہائی کمال طبقہ ہے اور ان کی بے حسی اور ظلم کے چرچے بھی زبانِ زدِ عام ہے۔ یہ بھی ڈاکٹرز سے کم نہیں ’عدالتوں میں ہوں یا بازروں اور سفر میں‘ یہ ہرجگہ اپنی غنڈہ گردی اور اپنی وکالت کی دھاک بٹھانے میں لگے رہتے ہیں۔ مثلاً آپ ایک واقعہ سنیے ’میرا ایک دوست انارکلی میں موٹر سائیکل پارک کر رہا تھا‘ ایک وکیل آئے اور اپنی موٹر سائیکل نکالتے ہوئے اس کی بائیک کا اشارہ توڑ دیا ’اس نے جب وکیل سے شکوہ کیا تو وہ بولا کہ ”آپ مجھے جانتے نہیں‘ میں ہائیکورٹ کا وکیل ہوں اور مجھ سے بحث کی تو صبح نوٹس آپ کے گھر پہنچ جائے گا“۔

وہ میری جانب دیکھ کر مسکرایا اور اُسے کہا او کے محترم آپ جا سکتے ہیں۔ وہ دوبارہ بولا آگے سے آنکھیں دکھاتے ہو اور اسے تھپڑ رسید کر دیا۔ خیر معاملہ قریبی تھانے تک گیا اور صلح ہوئی۔ لیکن حیرانی کی بات دیکھیں کہ یہ لوگ عام آدمی کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں ’ان کی بات کا آغاز ہی ماں بہن کی گالی اور تھپڑ سے ہوتا ہے۔ عام آدمی تو کسی بھی قسم کا کیس فائل کرتے ہوئے ڈرتا ہے‘ وہ پہلا سوال ہی یہ کرتا ہے کہ وکیلوں کی فیسیں کون دے گا۔ قارئین میں وکیل گردی کی بھی ایک طویل فہرست یہاں لکھ سکتا ہوں جن کا میں عینی شاہد ہوں۔

ایک ماہ قبل جب ڈاکٹرز نے وکیلوں کو مارا تھا تو میرا وہی دوست بہت خوش ہوا اور فون کر کے بولا ”سر دیکھیں ’میرے موٹر سائیکل کے اشارے کا بدلا اتر گیا“ میں قہقہہ لگا کر ہنسا اور اسے کہا بھائی ڈاکٹرز نے غلط کیا۔ کل جب وکیلوں نے ڈاکٹرز کی پٹائی کی تو پھر اسی دوست کی کال آئی اور کہا بھائی دیکھیں ڈاکٹرز نے آپ کو لفٹ نہیں کروائی تھی‘ وکیلوں نے بہت اچھا کیا اور اگر وکیل باقاعدہ اعلان کر کے جاتے تو میں سب سے آگے ہوتا ”۔

میں نے اسے چائے پہ دعوت دی اور شام ہم انارکلی بیٹھ گئے، میں نے اسے کہا یار یہ تم کیا چیز ہو ’کل وکیلوں کو مار پڑی تب بھی خوش تھے اور آج ڈاکٹرز کو پڑی پھر بھی خوش۔ وہ کہنے لگا بھائی اصل میں خوشی یہ ہے کہ ”چوروں کو مور پڑ گئے“۔ میں نے کہا وہ کیسے‘ وہ بولا بھائی اصل میں یہ دونوں گروپ اس سسٹم اور ریاست میں سب سے بڑے بلیک میلر ہیں ’آپ ڈاکٹرز کو دیکھیں‘ وہ آئے روز سڑکوں پہ نکل آتے ہیں اور مریض بے چارے سسک سسک کر مر رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ’یہ او پی ڈیز اور ایمرجنسی کو تالے لگا کر خود احتجاج کے لیے نکل پڑتے ہیں‘ انہیں لگتا ہے کہ ریاست ان کے باپ کی جاگیر ہے اور یہ جب چاہیں اور جیسا چاہیں کروا سکتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے بھائی ’کیا یہ ملک صرف ڈاکٹرز کے لیے ہی بنا ہے؟ آپ وکیلوں کو دیکھ لیں‘ کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جب ان کے خلاف کوئی نہ کوئی مقدمہ درج نہ ہو۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایک ماہ میں صرف لاہور میں وکیل گردی کے خلاف ایک سو آٹھ مقدمات درج ہوئے لیکن ظلم کی انتہا دیکھیں کہ کسی پر کوئی فیصلہ سنا یاگیا اور نہ کسی وکیل کو سزا ہوئی۔ میرا خیال ہے کل کے واقعے میں جو مریض اس غنڈہ گردی کا شکار ہوئے یا جو املاک کو نقصان پہنچا ’اس کا مقدمہ دونوں گروپوں پر ہونا چاہیے اور ریاست کو آج فیصلہ کرنا چاہیے کہ یہ ملک ڈاکٹرز اور وکیلوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے یا اس میں عام آدمی کی بھی زندگی آسان ہو گی۔

یہ ملک عجیب دوراہے پر کھڑا ہے ’کبھی اپوزیشن تو کبھی مذہبی ٹھیکیدار اور کبھی ڈاکٹرز تو کبھی وکیل اسے بلیک میل کرنے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ کبھی سرکاری ملازمیں دھرنا دے کے بیٹھ جاتے ہیں تو کبھی معذور افراد نوکریوں کے لیے سڑکوں پہ نکل آتے ہیں۔ یہ ملک اب تو مسائلستان اور دھرنستان لگنے لگ گیا ہے جہاں آئے روز کوئی نہ کوئی تماشا لگا ہوتا ہے۔ ریاست کو اس حوالے سے سخت قانون بنانا چاہیے کہ کوئی بھی ایسے بلاوجہ نہ تو عام آدمی کو ذلیل و رسوا کرے اور نہ ہی حکومت اور ریاست کو بلیک میل کیا جائے ورنہ تو جیسا ہو رہا ہے اس سے کسی بھی طرح کی غنڈہ گردی ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گی جس کا نقصان بہرحال عام آدمی کو ہی ہوگا.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).