بچپن کے کھرنڈ


شاید یہ مقدر کا فیصلہ تھا کہ گھر کی طرف جانے والی بس میں سوار ہونے والے بس سٹاپ پر میری ماں ہمیں ملی۔ اس سٹاپ سے ایک سٹاپ آگے ہمارا گھر تھا۔ میری ماں بس میں اپنے گھر جا رہی تھی مگر اس سٹاپ پر جیسے ہی بس رُکی اس نے ہمیں پوری قوت سے دوڑتے اور ہمارے پیچھے دو جنونی لڑکوں کو بھاگتے اور چاقو لہراتے دیکھ لیا تھا لہٰذا وہ وہیں اتر گئی۔ میں بے قابو ہو کر ماں کی بانہوں میں جھول گئی۔ اتنی شدت سے کہ وہ گرتے گرتے بچی۔ جیسے ہی لڑکوں کو اندازہ ہوا کہ ہم اس عورت کو جانتے ہیں۔ وہ واپس ہو لیے۔ ہم نے امی کو سارا ماجرا سنایا۔ وہ ہمارے ساتھ اسکول کی طرف چل پڑی تاکہ پرنسپل کو صورتِ حال سے آگاہ کیا جا سکے۔

ہماری پرنسپل نے میری والدہ کو ان لڑکوں کے گھر کے فون نمبر اور ایڈریس دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ خداجانے میرے والدین نے ان لڑکوں کے گھر جا کر کیا کہا۔ خیر جو کچھ بھی کہا، غنیمت یہ ہوا کہ وہ آوازیں کسنا بند ہو گئے۔ میں تو اب تک یہ سوچ کر خوفزدہ ہو جاتی ہوں کہ وہ لڑکے ہمارے ساتھ اس دن کیا سلوک کرتے اگر ہم دونوں ان کے ہاتھ لگ جاتیں؟ کیا وہ واقعی ہمارے گلے کاٹ دیتے؟ مگر ہمارے ساتھ ان کی اتنی شدید نفرت کی آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کیا ہمارے جلد کی رنگت اس قدر اشتعال انگیز تھی؟

آٹھویں جماعت میں، میں ہمہ وقت پڑھتی تھی۔ میں پڑھائی اور ٹیسٹس کو لے کر اس قدر گھبرائی ہوتی تھی کہ مجھے باقاعدہ اُلٹیاں آجاتی تھیں۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرے ٹیسٹ کے نتائج مجھے بتائیں گے کہ میں پڑھائی میں بہتر نہیں ہوں اور یہ کہ سب کالے بے وقوف ہوتے ہیں۔ میرے اس طرح سوچنے کی ایک معقول وجہ تھی کیونکہ ایک طرح سے میں گریڈ 7 میں تقریباً فیل ہی قرار دے دی گئی تھی۔

مجھے میرا پہلا جیوگرافی ٹیسٹ یاد ہے۔ میں نے اپنے ہی بنائے ہوئے نوٹس کو کئی بار لکھا۔ تمام اہم الفاظ کے معنی ٹیکسٹ بکس سے لے کر انہیں بولڈ کر کے لکھا اور انہیں بار بار دُہرایا اورمیری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ پیپر میں سب کچھ وہی تھا جو میں اتنے دِنوں سے رٹتی چلی آ رہی تھی۔ میں نے ایک احساسِ تفاخر سے وہ ٹیسٹ مکمل کیا۔ مجھے معلوم تھا کہ میں اگر سو فیصد نہیں تو بھی نوے فیصد رزلٹ لے کر رہوں گی۔ میرا خود پر اعتماد پختہ ہو گیا کہ اب چیزیں بہتر ہو جائیں گی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

اگلے روز جیوگرافی کے ٹیچر نے مجھے اپنے ڈیسک پر بلایا۔ اس نے میرے ہاتھ میں میرا پیپر تھمایا جس پر سرخ رنگ سے ایک بہت بڑا زیرو بنا ہوا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ مجھ پر برس پڑا کہ میں نے نقل کرنے کی جرأت کیونکر کی۔ اس نے مجھے ایک لمحہ بھی نہ دیا کہ میں اپنی صفائی میں کچھ بتا سکتی کہ کیونکر میرے لکھے گئے جوابات ٹیکسٹ بک میں موجود ٹیکسٹ کا ہوبہو عکس ہیں۔ اس کی منطق مضحکہ خیز تھی کیونکہ جس ڈیسک پر میں نے پیپر حل کیا تھا اس ڈیسک پر میں پانچ دیگر طلباء کے ساتھ بیٹھی تھی لہٰذا نقل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ اس دن میں نے جو سبق سیکھا وہ یہ تھا کہ مجھے امتحانات اور دیگر ٹیسٹس بہترین نہیں کرنا چاہئیں کیونکہ اساتذہ قطعی اس بات پر یقین نہیں کریں گے کہ یہ میری محنت ہے بلکہ وہ اسے چیٹنگ کہیں گے۔

جم ٹیچر نے نجانے کیونکر چھ سات گیمز میں میرا نام لکھ رکھا تھا۔ میں ایک دو گیمز کی حد تک تو کھیلنا قبول کر سکتی تھی مگر اتنے سارے کھیلوں میں حصہ لینا، اس مرحلے پر ناممکن تھا۔ مگر اپنی فطری شرمیلی طبیعت کی وجہ سے کسی سے اس بابت کوئی شکایت نہ کر سکی۔ آخر کار میں نے اپنے ایک دوست سے اس بابت تلخی سے بات کی۔ وہ سیدھا ہوم روم ٹیچر کے پاس گیا اور صورتِ حال بیان کی۔ میری حیرت دوچند ہو گئی جب اس ٹیچر نے مجھے اور میرے دوست کو اپنے ساتھ لیا اور جم ٹیچر کے کمرے میں چلا تاکہ اس سے پوچھے کہ جو گیمز میں نہیں کھیلنا چاہتی ان میں میرانام کیوں شامِل کیا ہے؟

سات سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اپنے کھیلنے کے لیے صرف دو کھیل منتخب کیے تھے اور وہ تھے 50 یارڈ دیش اور ریلے۔ یقینی طورپر یہ بات میری جم ٹیچر کو بہت ناگوار گزری جس کا اظہار اس نے مجھے سپورٹس میں ”D“ گریڈ دے کر کیا۔ مجھے نیچا دکھانے کے لیے ”ایتھلیٹ آف دی سکول“ کا ایوارڈ اس لڑکی کو دیا گیا جس نے صرف ایک سال قبل سکول میں داخلہ لیا تھا۔ کئی ٹیچرز نے حیرت زدہ ہو کر جم ٹیچر سے استفسار کیا کہ یہ ایوارڈ جیسمین کو کیوں نہیں دیا گیا جو کہ ہر سال کھیلوں میں اوّل آتی رہی ہے۔ جم ٹیچر ایک موقع پر چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ لیے میرے قریب آئی اور میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولی ”اگر تم ذرا کوآپریٹو رہتیں تو یہ ایوارڈ تمہارا ہو سکتا تھا۔ “ میری آنکھ میں کوئی آنسو نہیں تھا۔ ہاں مگر ذہن میں یہ احساس ضرور تھا کہ زندگی فیئر نہیں ہے۔

جب میں بچی تھی تب یقینی طور پر مجھے اس بات کا احساس نہیں تھا کہ میری جلد کی رنگت اگر مختلف ہوتی تو میں کئی مشکلات سے بچ سکتی تھی۔ میرے والدین نے مجھے کبھی یہ نہیں سمجھایا تھا کہ دیکھو تمہاری سیاہ رنگت کی وجہ سے لوگ تمھیں مختلف طریقے سے ٹریٹ کریں گے۔ یا یہ کہ لوگ تمہاری دانش اور صلاحیتوں پر ہمیشہ شک کریں گے اور یہ کہ تم صرف سپورٹس اور ڈانس میں ہی کچھ بہتر ثابت ہوسکتی ہو۔

یہ بات مجھے افسردہ کر دیتی ہے کہ میرے بچپن کی یادیں، چند لوگوں کی منفی حرکات کی وجہ سے ہمیشہ تکلیف دہ رہیں گی۔ آج جب میں ماضی کے واقعات میں جھانک کر دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ کچھ لوگوں کے غیرمناسب طرزِعمل کی وجہ سے میری زندگی مکمل طور پر منفی ہو سکتی تھی مگر ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ میرے اِردگرد اچھے لوگ بھی تھے جیسا کہ میری فیملی اور دوست۔ جنہوں نے مجھے کئی صدموں کو جھیلنے کی ہمت بخشی اور انسانوں پر میرے بھروسے کو اعتماد بخشا۔

میں نے شعوری طور پر اس سسٹم کو سمجھنے کی کوشش کی جو کینیڈا میں نسل پرستی کے عملی مظاہروں اور پالیسیوں کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ مگر سب سے اچھی بات کہ ان تجربات نے میری زندگی کو ایک سمت عطا کی۔ میری صلاحیتوں کو بیدار کیا تاکہ میں ایک مقصد ِحیات لے کر چلوں اور مکمل طور پر کمیٹڈ ہو کر اپنے ٹارگٹ کو حاصل کروں۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں صرف اسی وجہ سے ہوں کہ میں نے اپنے آپ پر اپنا بھروسا ٹوٹنے نہیں دیا۔

*** ***

جیسمین جیک مین کا یہ مضمون ”Childhood Taunts“ کے عنوان سے ”Shine Like a Diomond“ نامی کتاب میں زندگی کو فتح کرنے کی کہانیوں میں شامل ہے۔

(شاندار نظموں اور کہانیوں کی خالق جیسمین جیک مین ٹورنٹو پیل اسکول بورڈ کی ایوارڈیافتہ ہائی اسکول ٹیچر اور مینٹور ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ٹورنٹو ریجن کی صدر اور نیشنل ایسوسی ایشن آف ملٹی کلچرل ایجوکیشن کی ریجنل ڈائریکٹر ہیں۔ 1980 ء سے وہ مختلف تنظیموں اور نوجوانوں کے ساتھ گریٹر ٹورنٹو ایریا میں سوشل جسٹس پر کام کر رہی ہیں۔ بحیثیت چیئرپرسن وہ افریقن وومین ایکٹنگ ایسوسی ایشن میں تبدیلی کے لیے صلاحیت، دُوریاں ختم کرنے اور کمیونٹی اور سوشل ڈائیورسٹی کے حوالے سے سرگرم عمل رہی ہیں۔ کینیڈا کی ایجوکیشن پالیسی اور لیڈرشپ ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع ہے۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3