وکلا اور ڈاکٹر: سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا


ساری مذہبی اور غیر مذہبی توجیہات ایک طرف، اب بھی اگر اپنی کچھ غلطیاں یاد آئیں تو مکافاتِ عمل کے خوف سے روح کانپ اُٹھتی ہے۔ کبھی کبھار انسان سے ایسے کام سرزد ہو جاتے ہیں کہ جن کا پچھتاوا عمر بھر رہتا ہے۔ ضرور ایسی ہی کسی کیفیت میں غالب نے کہا ہو گا

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

باقی چیزیں تو انسان معاف کر بھی دیتے ہوں گے لیکن کسی انسان کی جان لینے والے کیسے خود کو معاف کر سکتے ہوں گے؟ پی آئی سی میں برپا ہوئی رزمِ حق و باطل کے کردار کس منہ سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اُن کے اس عمل کو یکسر فراموش کر دیا جائے؟ اس صورتحال کا سامنا اُن وکلاء کو یا اُن کے پیاروں کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

جذبات کی شدت میں کیا گیا ہر فیصلہ تباہی کا باعث بنتا ہے۔ آپ ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی کرتے اُس حد تک چلے جاتے ہیں کہ جہاں سے چاہتے ہوئے بھی واپسی مشکل ہو جاتی ہے۔ خدارا ابھی بھی ہوش کا دامن تھام لیجیے۔ نوجوان ڈاکٹرز اور نوجوان وکلاء پہلے ہی مافیا کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ دونوں فریقین کے سینئیرز کو اس صورتحال کو سنبھالنا ہو گا۔ اس صورتحال میں ڈاکٹرز پہلے ہی اخلاقی طور پہ اپنے آپ کو بہتر ثابت کر چکے ہیں۔

ظلم سہنے کے باوجود ایک بھی ہسپتال بند نہیں ہوا۔ اس کے بر عکس وکلاء بجائے کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرنے کے، ان کی حمایت میں ہڑتال پہ چلے گئے ہیں۔ افتخار چوہدری والے کیس میں ہم نے وکلاء کی تحریک کو سپورٹ کیا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ افتخار چوہدری اعلیٰ ظرف کے مالک نہیں ہیں۔ لگتا تھا کہ وکلاء حق پہ ہیں اس لئے اس تحریک میں ان کی حمایت کی۔ لیکن موجودہ درندگی میں اگر باشعور وکلاء خود کو ان ہسپتال پر حملہ کرنے والے درندوں سے الگ نہیں کرتے تو یہ ان کے کردار پہ بھی سوالیہ نشان ہو گا۔ سب سے بہتر عمل یہ ہے کہ اپنی صفوں کو خود صاف رکھیں۔ اگر بے گناہ لوگ گرفتار ہوئے ہیں تو آپ شر پسند عناصر سے خود کو الگ کر لیں اور ان کی خود نشان دہی کر دیں۔

انہی وکلاء میں سے کچھ لوگ مستقبل میں جج کے منصب پہ براجمان ہوں گے۔ کیا ایسے ضمیر کے ساتھ وہ درست فیصلے کر سکیں گے؟ مجھے خدشہ ہے کہ اگر اس جنگ کو اگر بروقت نہ روکا گیا تو مستقبل میں یہ مزید گھناؤنی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس صورتحال کو چیف جسٹس صاحب اور بار کونسلز کو بروقت سنبھالنا ہو گا۔ مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کے لئے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ وکالت ایک اچھا اور قابلِ احترام پیشہ ہے۔ آپ چند لوگوں کو اپنی بدنامی کا باعث بننے کی اجازت ہر گز نہ دیجئے۔ مستقبل کے لئے بہتر تو یہ ہو گا کہ آپ کسی ایک وکیل کی ذاتی غلطی کو اسے خود ہی سدھارنے دیں۔ اسے تمام وکلاء کا پیشہ وارانہ مسئلہ بنا کے پیش بھی نہ کریں اور اس کا دفاع بھی نہ کریں۔

معاشرے سے انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ مرحلہ بہت طویل اور صبر آزما ہو گا۔ سب سے زیادہ ضرورت لیکن اس امر کی ہے کہ اس سمت پہلا قدم تو اُٹھایا جائے۔ ڈاکٹر اور وکیل کا شمار پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ ایسے رویے رکھیں گے تو باقی معاشرے کے حالات آپ خود ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ یہ قصہ یہیں پہ ختم نہیں ہو جاتا، ٹھیک ایک روز بعد اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں طلبہ کے ہاتھوں فائرنگ سے ایک طالبِ علم کی جان چلی جاتی ہے۔

بہت سنجیدگی سے معاشرے کے ذمہ دار افراد کو مل بیٹھنا ہو گا۔ ہر طبقے کے لوگوں کو ہر سطح پہ غور کرنا ہو گا۔ کہیں نہ کہیں ہمارے رویوں میں کچھ تو غلط ہے۔ ہم کس طرح کی نسل تیار کر رہے ہیں؟ کیا جو غلطیاں ہم سے پہلے والے کر چُکے ہم بھی اُن کا ازالہ نہیں کریں گے؟ اگر مزید دیر کی گئی تو یہ معاشرہ جہاں پہلے ہی گھٹن کا راج ہے، بالکل بھی رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔

ہمارا عمومی رویہ تو یہ ہے کہ انتہائی حساس اور سنجیدہ مسائل پہ بھی ہر وہ شخص خاموش رہتا ہے جو ابھی تک خود اس کا شکار نہیں ہوا۔ ہمیشہ دوسروں کو مصیبت میں دیکھ کر آنکھیں چرائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹنے کی تو شاید اب تربیت ہی نہیں دی جاتی۔ ایک مدت سے ہم نے بچوں کو وارث شاہ اور بلھے شاہ کے بارے میں بتانا چھوڑ دیا ہے۔ ہماری نئی نسل شاید ان ناموں سے بھی واقف نہ ہو۔ اگر ہم معاشرے میں سدھار لانا چاہتے ہوں تو ہمیں ان بزرگوں کا کلام بھی بچوں کو منتقل کرنا ہو گا۔ ہمارے سیاست دانوں کو بھی اپنے رویوں اور اپنی گفتگو میں محتاط رہنا ہو گا۔ اس سے زیادہ خرابی کی گنجائش تو ہر گز نہیں ہے۔ چیزوں کو اب بہتر ہونا ہو گا۔ دیکھنا مگر یہ ہے کہ بہتری کے اس سفر کی قیادت کا شرف کسے حاصل ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).