جامعہ ملیہ پر مودی سرکار کا دھاوا


پاکستان کی بہت ساری مشکلات کا بھارت کو اس کی اوقات سے کہیں زیادہ ذمہ دار ٹھہرانا میری عادت نہیں۔ 16 دسمبر کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے 1971 کے اُس منحوس دن ہوئے سقوطِ ڈھاکہ کو بھلادینا میری نسل کے لوگوں کے لئے ممکن ہی نہیں۔ بھارت نے یقینا مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کرنے میں خالصتاً فوجی اعتبار سے کلیدی کردار اداکیا تھا۔ اندراگاندھی نے اس کے بعد یہ بڑھک بھی لگائی تھی کہ بنگلہ دیش کے قیام نے دو قومی نظریہ کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا ہے۔

یہ کہتے ہوئے وہ یہ حقیقت فراموش کر گئی کہ دوقومی نظریہ کو ”سیاسی“ جہت مسلم لیگ کے قیام نے فراہم کی تھی اور اس جماعت کا قیام ڈھاکہ میں ہوا تھا۔ مسلمانوں کے لئے جداگانہ وطن کے قیام کی حقیقی خواہش تقسیم بنگال کی تنسیخ کی وجہ ہی سے ابھری تھی جسے بنگالی ہندوؤں نے تخریب کاری کے ذریعے برطانوی سرکار پر مسلط کیا تھا۔ تاریخی حقائق کی تفصیل میں اُلجھ کر آپ کا وقت ضائع کرنا نہیں چاہ رہا۔ Fast Trackپر چلتے ہوئے 2019 میں آجاتے ہیں۔

بنگلہ دیش کی حسینہ واجد دل وجان سے بھارت نواز ہے۔ جنوبی ایشیاء کا یہ واحد اور وہ بھی مسلم اکثریت والا ملک ہے جس نے بھارت کے ساتھ اپنے سرحدی معاملات ہمیشہ کے لئے طے کرلئے ہیں۔ خود کو ”ہندومملکت“ کہلوانے والے نیپال کے لیکن مودی سرکار سے بھی اس ضمن میں قضیے ابھی تک حل نہیں ہوئے۔ حال ہی میں لیکن ”بھارتی شہریت“ کے حوالے سے ایک نیا قانون متعارف کرواتے ہوئے مودی سرکار کے وزیر داخلہ امیت شانے بنگلہ دیش کے بارے میں حقارت آمیز کلمات اداکیے ۔

تاثر یہ دینے کی کوشش کی کہ ”غربت“ سے گھبرا کر بنگلہ دیشی ہربرس ”لاکھوں“ کی تعداد میں بھارت آجاتے ہیں۔ آسام میں ان کی مسلسل آمد کی وجہ سے اس صوبے میں ہندو، مسلم آبادی کا تناسب ”بگڑ“ رہا ہے۔ ”خدشہ“ یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش سے آئے مسلمان بالآخر آسام کو اپنا مرکز بناتے ہوئے پورے بھارت پر ”مسلم انتہاپسندی“ مسلط کردیں گے۔ امیت شا کی یاوہ گوئی قطعاً بے بنیاد تھی۔ ورلڈ بینک کے فراہم کردہ اعدادوشمار واضح الفاظ میں بنگلہ دیش کو ان دنوں جنوبی ایشیاء کا سب سے زیادہ ترقی پذیر ملک دکھاتے ہیں۔

معیشت کی شرح نمو وہاں 8 فی صد سے آگے جارہی ہے۔ بھارت میں اس کا پانچ فی صد کوچھونا بھی ناممکن نظر آرہا ہے۔ آبادی کی شرح میں سالانہ اضافہ بنگلہ دیش میں اب فقط ایک فی صد رہ گیا ہے۔ فی کس آمدنی 1700 ڈالر ہے۔ آسام میں اس کی شرح 1100 ڈالر فی کس ہے۔ کسی ملک کو ”ترقی یافتہ“ یا ”ترقی پذیر“ دکھانے والے جو بھی معیار ہیں ان کی بنیاد پر بھارت اور بنگلہ دیش کا تقابل کریں تو یہ کہانی گھڑنے کی ہمت ہی نہیں ہوگی کہ بنگلہ دیشی غربت سے لاچار ہوئے اپنا مستقبل ”بہتر“ بنانے کے لئے بھارت پر ”ٹڈی دل کی طرح“ حملہ آور ہورہے ہیں۔

ٹرمپ ہویا جانسن، دُنیا بھر کے نسل پرست تعصبات کی آگ بھڑکانے کے لئے ٹھوس اعدادوشمار کو ہمیشہ نظرانداز کردیتے ہیں۔ مودی سرکار بھی ان دونوں کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ ”ہندوتوا“ کی بنیاد پر ابھری فسطائیت کو مسلط کرتے ہوئے وہ یہ حقیقت بھول رہی ہے کہ بھارت برطانیہ کی طرح دُنیا سے کٹا جزیرہ کبھی نہیں رہا۔ امریکہ کی طرح اسے آج سے چند ہی سو سال قبل ”دریافت“ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ بھارت کئی صدیوں سے سلک روٹ اور سمندر کے ذریعے ہوئی تجارت کی بدولت دُنیا بھر کے لئے ایک Openخطہ رہا ہے۔

جغرافیائی قربت کی وجہ سے وسط ایشیاء سے آئے دلاوروں نے یقینا اس کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ غزنوی دور کے بعد سے انگریزوں کی آمد تک وسط ایشیاء سے آئے لوگ ہی کئی صدیوں تک یہاں حکمران رہے۔ مسلمانوں کو اس خطے کے لئے لہذا ”اجنبی“ قرار دیا ہی نہیں جاسکتا۔ تاج محل بنانے والوں کی اولاد کو ”تارکینِ وطن“ شمار کرنا ناممکن ہے۔ ٹھوس حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت کے سرکاری اعدادوشمار بھی اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد کو کم از کم 20 کروڑ تسلیم کرتے ہیں۔

سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ ہر چھٹا بھارتی شہری مسلمان ہے۔ ہندوؤں کے مقابلے میں وہ یقینا اقلیت میں ہیں۔ اقلیت کی اس بھاری بھر کم تعداد کو لیکن دوسرے درجے کا شہری بنایا ہی نہیں جاسکتا۔ فسطائی بنیادوں پر ”شہریت“ والا قانون بناتے ہوئے مودی سرکار نے فقط آسام ہی میں آگ نہیں بھڑکائی۔ بنگلہ دیش کو بھی اس کے ساتھ اپنی ”محبت“ سے رجوع کرنے کو مجبور کردیا ہے۔ حسینہ واجد کے وزیر خارجہ اور وزیر اطلاعات نے بھارت کا طے شدہ دورہ منسوخ کردیا۔

لطیفہ یہ بھی ہے کہ ان میں سے ایک وزیر نے اس تقریب میں شریک ہونا تھا جو بنگلہ دیش کی ”جنگ آزادی کے شہدا“ کی یاد میں ہونا تھی۔ بنگلہ دیش کی خفگی نے بھارتی بنگال کی ممتا بینرجی کو مودی سرکار کی مزاحمت کے لئے مزید توانائی بخشی ہے۔ بنگالی قوم پرستی ”ہندوتوا“ کے مقابلے میں کھڑی ہوتی نظر آرہی ہے۔ برطانوی دور میں اکثریہ کہا جاتا تھا کہ What Bengal thinks today، Whole India will think tomorrow۔ اس دعویٰ کو دورِ حاضر پر لاگو کریں تو ”ہندوتوا“ پر مبنی فسطائیت اپنے انجام کی جانب بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

ہندواکثریت کے غرور میں مبتلا ہوئے جنونی مگر اپنی سوچ میں In Builtخامیوں پر نگاہ ڈالنے کو تیارہی نہیں ہوتے۔ یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ریاستی جبر کے وحشیانہ استعمال سے لوگوں کو فسطائیت کا غلام بنایا جاسکتا ہے۔ آسام میں بھارتی شہریت کے حوالے سے بنائے قانون نے جو آگ بھڑکائی وہ اتوار کے دن دلی میں بھی شعلے بھڑکاتی نظر آئی۔ اس شہر کے جنوب میں ”جامعہ ملیہ“ ہے۔ اس کے اِردگرد آباد محلوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

ان محلوں سے چند نوجوانوں نے شہریت والے قانون کے خلاف احتجاج کرنا چاہا تو دلی پولیس نے وحشیانہ انداز میں ”تخریب کاروں“ کا تعاقب کرتے ہوئے جامعہ ملیہ پر یلغار کردی۔ اس یونیورسٹی کے ہوسٹلوں، لائبریری حتیٰ کہ مسجد میں بھی گھس کر بچوں اور بچیوں کی تخصیصکیے بغیر بہیمانہ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا نشانہ بنایا۔ طالب علموں کو جنگی قیدیوں کی طرح ہاتھ اٹھاکر اس جامعہ سے باہر آکر پولیس کے سامنے ”سرنڈر“ کرنے کو مجبور کیا۔

”جامعہ ملیہ“ پر دھاوا بولتے ہوئے مودی سرکار بھول گئی کہ 1920 میں یہ ”جامعہ“ علی گڑھ ہی میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے بانیوں کا خیال تھا کہ سرسید احمد خان کی بنائی علی گڑھ یونیورسٹی ”ہندو، مسلم تفرقہ“ کو فروغ دے رہی ہے۔ جامعہ ملیہ بھارتی مسلمانوں میں ”وطن پرستی“ کو پروان چڑھائے گی۔ دیوبند کے ”شیخ الہند“ مولانا محمودالحسن اس کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ بعدازاں 1925 میں اس یونیورسٹی کو دہلی منتقل کردیا گیا۔

ڈاکٹر ذاکرحسین اس کے مدارالمہام ہوئے۔ مولانا آزاد کی سرپرستی میں پھولتی پھلتی اس یونیورسٹی سے رشتے کے سبب ہی ڈاکٹر ذاکر حسین ”سیکولر“ بھارت کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔ ہندومسلم تقسیم سے بالاتر ”وطن پرست“ مسلمانوں کی ذہنی ساخت اور تربیت کے لئے قائم ہوئی ”جامعہ ملیہ“ کو اتوار کے دن جس وحشیانہ انداز میں پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ مودی سرکار کی فسطائیت کی بدولت اُبھرے خلفشار کو مزید بھڑکائے گا۔

علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی اس کے ردعمل میں فسادات بھڑکنے والے تھے مگر وہاں کی انتظامیہ نے گھبراہٹ میں اسے ”سردیوں کی تعطیلات“ کے لئے ”اچانک“ بندکردیا ہے۔ طالب علموں کو ”تعطیلات“ کی باعث ہوسٹل چھوڑنے کی ہدایات جاری ہوئی ہیں۔ جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے نواحی محلوں میں اب گھر گھر تلاشی لینے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ ”تخریب کار“ طلباء وہاں دبکے کہیں نئے ”فساد“ کے منصوبے تو نہیں بنارہے۔

مجھے شدید خدشہ لاحق ہے کہ بھارتی میڈیا میں جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے واقعات کی جس انداز میں Coverageکروائی گئی ہے (میں نے یہ فقرہ بہت سوچ بچار کے بعد لکھاہے ) بھارت کی نام نہاد کاؤبیلٹ یعنی ہندواکثریت والے شہروں اورقصبات میں BJPکے انتہاپسند جتھوں کو اشتعال دلوائے گا۔ دلی، راجستھان اور یوپی کے کئی علاقوں میں اس کوریج کی بدولت ہندومسلم فسادات کی آگ بھڑکائی جائے گی تاکہ مسلمانوں کو جتھوں کی طاقت سے سرجھکانے پر مجبور کیا جاسکے۔ ایسا مگر ہوگا نہیں۔ ”ہندوتوا“ کو ”وطن پرستی“ دکھانے کے لئے مودی سرکار اب پاکستان سے جنگ کے بہانے ڈھونڈنے کو مجبور ہوجائے گی۔ ہمیں اس کے ہتھکنڈوں پر کڑی نگاہ رکھنا ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).