ہمارے خاندانی نظام میں تبدیلی کی ضرورت


پسماندہ معاشروں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اہم مسائل پر گھسے پٹے انداز میں ایک ہی طرح کی باتیں اتنی بار دہرائی جاتی ہیں کہ پورا مسئلہ چند رٹے رٹائے مفروضوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ عورتوں کے حقوق اور خاندانی نظام میں درکار تبدیلیوں ہی کو لے لیجئے۔ گذشتہ صدی میں مولوی ممتاز علی کی تحریروں سے لیکر آج تک ہمارے نام نہاد ثقہ حلقوں نے اس بنیادی مسئلے کو ٹھٹھے بازی کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ کبھی اس پر فحاشی کی تہمت لگائی جاتی ہے تو کبھی مغرب کے اس خاندانی نظام کو لتاڑا جاتا ہے جو ہمارے دانشوروں کی رائے میں عرصہ ہوا زوال پذیر ہو چکا۔کبھی سوال کیا جاتا ہے کہ آخر مردوں کے حقوق کی بات کیوں نہیں کی جاتی۔حالانکہ بات سیدھی سی ہے۔ تاریخی طور پر جو طبقات یا گروہ مختلف وجوہات کی بنا پر ترقی اور حقوق کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ان کے حقوق کے تعین اور فراہمی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اقلیتوں، عورتوں اور بچوں کے حقوق پر توجہ مرکوز کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قوانین اور اداروں کی سطح پر ایسے ڈھانچوں میں اصلاح کی جائے جو پچھڑے ہوئے طبقات کے ساتھ امتیازی سلوک کا باعث بنتے ہیں۔

اسی طرح عورتوں کے سیاست میں حصہ لینے کا سوال ہے۔ اس ضمن میں خالص مذہبی بنیادوں پر بحث کو تو چھوڑیں کہ عورتوں کو سیاست سے باہر کرنے کے خواہشمند احباب ہماری مختصر تاریخ کے کسی نہ کسی موڑ پر خود خواتین کی سیاسی قیادت تسلیم کر چکے ہیں۔ اصل مسئلہ محض ان چند خواتین کی سیاست میں شمولیت کا نہیں جو اپنے خاندانی اثر و نفوذ اور مراعات یافتہ طبقات سے تعلق کے باعث سیاست میں موجودہیں۔ سوال ان وسائل سے محروم کروڑوں عورتوں کو سیاسی عمل میں شریک کرنے کا ہے جنہیں نہ تو تعلیم تک رسائی ہے اور نہ علاج معالجے کی سہولتیں میسر ہیں۔ انہیں نہ تو روزگار کے مواقع حاصل ہوتے ہیں اور نہ گھر کی چار دیواری میں موثر آواز ملتی ہے۔ تاریخ میں جہاں کہیں استحصال کا شکار ہونے والے گروہوں کو اپنے حقوق منوانے کا موقع ملتا ہے معاشرے کی پیداواری اور اخلاقی حالت میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔

گزشتہ سو سال سے گویا ہمارا واحد مسئلہ مروجہ خاندانی ڈھانچوں کا تحفظ ہے۔ سماجی تبدیلی کی کوئی کروٹ ہو، انسانی فکر کسی نئی علمی جہت کا سراغ لگائے یا میدان سیاست میں کوئی نیا مرحلہ درپیش ہو، ہمارا ردعمل ہر صورت میں ایک سا رہتا ہے، آنکھیں بند کر کے شور مچانا کہ ہمارا خاندانی نظام، معاشرتی ڈھانچہ اور اخلاقی اقدار خطرے سے دوچار ہیں۔ آئے روز بالغ اور تعلیم یافتہ نوجوان اپنی مرضی سے ازدواجی بندھن استوار کرنے کے جرم میں عدالتوں کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسے متعدد واقعات پیش آئے ہیں جن کے ردِ عمل میں مختلف مذہبی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے گوناگوں مفادات کے پیش نظر باقاعدہ مہم چلائی کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے خاندانی نظام تباہ کیا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی مساعی کا گویا واحد مقصد قوم کو مغرب کے منتشر خاندانی نظام کے نقصانات سے آگاہ کرنا ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ اس خوفزدہ ذہنی کیفیت کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں؟ کیا واقعی کچھ قوتیں ہمارا خاندانی نظام تباہ کرنے کے درپے ہیں؟ کیا ہمارے خاندانی نظام اور سماجی اقدار میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں؟

اگر ہمارا خاندانی نظام واقعی بہترین ہے اور انسانوں کو تحفظ، ترقی کے مواقع اور خوشیوں کی ضمانت فراہم کرتا ہے تو پھر کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ معاشرے کی اکثریت اتنی کم عقل اور اپنے فائدے سے بے نیاز نہیں ہو سکتی کہ آنکھیں بند کر کے اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مار لے۔ غالباً ہمارے ہی خاندانی نظام اور معاشرتی اقدار میں کوئی بنیادی خرابی ہے یا ہم ان سماجی ڈھانچوں کی بناوٹ اور ارتقا کو صحیح طریقے سے سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر نسل میں ایک بڑی تعداد ایک خاص عمر تک خاندانی نظام اور نام نہاد معاشرتی اقدار سے ٹکرانے کی سر توڑ کوشش کرتی ہے اور پچھلی نسل اِس رویے پر بوڑھی عورتوں کی طرح بازو پھیلا پھیلا کر بین کرتی نظر آتی ہے۔ کچھ سر پھرے قدیم رسم و رواج سے ہٹنے کی ہمت تو کر لیتے ہیں مگر وسیع سماجی حمایت، معاون قوانین، رسم و رواج، اداروں اور متبادل روایات کی عدم موجودگی میں معاشرتی بے گانگی کا شکار ہو جاتے ہیں اور انفرادی اُلجھنوں سے بھرپور غیر ہموار زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔ ایک بڑی تعداد معاشرتی دباﺅ کا سامنا کرنے کی جرات سے محروم ہوتی ہے یا روایت سے وابستہ مفادات کا لالچ آڑے آتا ہے۔ یوں بھی روایت کی گھسی پٹی شاہراہ پر اک بے فکرے ہجوم کے ساتھ چہل قدمی کرتے زندگی کرنا آسان ہے۔ بزرگوں کی تابعداری پر شاباش کے ڈونگرے الگ رہے اور مستقبل میں روایت کے ڈنڈے پر اجارہ داری بھی ہاتھ سے نہیں گئی۔

دوسری طرف اپنے شعور کی پگڈنڈی پر تن تنہا سفر کرتے ہوئے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑتا ہے۔ اب اگلا منظر دیکھیے، ماضی کی اسی باغی نسل کے بیشتر افراد ایک خاص عمر کوپہنچ کر ناجائز مفادات کے لالچ میں اور ذمہ داریوں کے بوجھ سے گھبرا کر اسی نظام کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں جو کل تک اُنھیں قبول نہیں تھا۔ روایت سے انحراف کیا جائے یا روایت کی پابندی، جو معاشرہ ارتقا اور تبدیلی کو ایک اُصول کے طور پر قبول نہیں کرتا، ہر دو صورتوں میں بے چینی کا شکار رہتا ہے۔ حقیقی خوشی کسی کے ہاتھ نہیں آتی، بغاوت کرنے والے جان لیوا معاشرتی دباﺅ میں ٹیڑھی میڑھی انفرادی نفسیات اور انتہا پسند اخلاقیات کی چکی میں پس جاتے ہیں۔ دوسری طرف سر تسلیم خم کرنے والے ایک خاص طرح کے جذبہ انتقام میں ڈوب کر اذیت پسند اور رجعت پسند رجحانات کے اسیر نظر آتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں معاشرے کے ہموار اخلاقی اور سماجی ارتقا میں خلل پڑتا ہے۔ غیر صحت مند اخلاقی اقدار فروغ پاتی ہیں۔ انفرادی منافقت رفتہ رفتہ اجتماعی بددیانتی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ایک اور نسل نوجوانوں کی اخلاقی بربادی، شاندار خاندانی ڈھانچوں کی ناقدری اور مغربی ثقافت کی نام نہاد یلغار کا رونا روتی نظر آتی ہے۔ یہ معاشرتی پسماندگی اُن مہربان حلقوں کو بے حد پسند ہےجنہوںنے معاشرے پر معاشی، سیاسی اور مذہبی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ جب اِنسان کے دل میں خوشی کی کرن ہی نہیں، نہ گزرے ہوئے کل کی یاد خوشگوار ہے نہ حال پہ اطمینان ہے اور نہ آنے والے کل سے بہتری کی اُمید تو پھر کون سیاست کے بکھیڑوں میں پڑے، علم کے میدان میں تحقیق کا دروازہ کھولے، نئی سوچ کا آوازہ بلند کرے اور انفرادی مفاد کو اجتماعی مفاد پر قربان کرے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments