ایک خلائی ریاست کا سفرنامہ


دنیا کی کسی کونے میں ایک ریاست تھی جس کا نام بھوٹان تھا جسے پیار سے خلائی ریاست کہا جاتا تھا۔ خلائی ریاست اس لئے کہا جاتا تھا کہ وہاں کی مخلوق بالکل خلائی تھی۔ جسم کے جس حصے میں، احساس، غیرت، انسانیت، کوئی شرم کوئی حیا ہوتی ہے اس حصے میں خلا ہی خلا تھا۔ اس ریاست میں کوئی بھی ادارہ اپنے علاوہ کسی ادارے کو ادارہ سمجھنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ ہر ادارہ دوسرے ادارے کو کرپٹ، دہشتگرد، اور ہر برائی کی جڑ سمجھتا تھا۔

اداروں کے درمیان جھڑپیں معمول کا حصہ تھیں۔ دوسرے اداروں کو نیچا دکھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ پولیس کو دیکھ کر عوام بھاگتی تھی، پولیس وکیلوں کو دیکھ کے ڈر جاتی تھی اور وکیل فوجیوں کو دیکھ کے بھاگتے تھے۔ اپنا کام کرنے میں سب ناکام تھے لیکن دوسروں کے کام میں دخل اندازی کرنا سب کا پسندیدہ فعل تھا۔ وکیل ڈاکٹروں کو ٹھیک کرنے میں لگے تھے اور ڈاکٹر وکیلوں کو، سیاستدان کامیڈی کرتے تھے اور دفاع سے منسلک ادارے سیاستدانوں اور معیشت کو ٹھیک کرنے میں لگے تھے۔

دشمن ممالک میں اپنی غیرت اور جرات کا لوہا منوانے والے فلم سٹار محاذ سنبھالتے تھے اور آئے دن دشمن کے مورچوں کی دھجیاں بکھیرتے تھے۔ دنیا بھر میں ویب سرچ میں پہلے نمبر پہ آنے والے نوجوانوں نے انسانوں کے ایمان کی جانچ پڑتال کرنے کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا تھا اور وہ کسی بھی انسان کا ایمان اپنے ایمان افروز سوالوں کی مدد سے چیک کر سکتے تھے۔ اور من مانے جوابات نہ ملنے پر قرار واقعی سزا سنا دیتے تھے۔ کبھی کبھار تو سرعام سزا پہ عملدرآمد بھی کیا جاتا تھا۔

کبھی وکلا ڈاکٹروں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرتے کبھی ڈاکٹر حضرات وکیلوں کے خلاف احتجاج کرتے۔ کبھی سیاستدان دفاعی اداروں کو برا بھلا کہتے اور کبھی دفاعی ادارے سیاستدانوں کو۔ ایک بار ایسا ہوا کہ وکلا نے ڈاکٹروں کے خلاف ریلی نکالی، ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر حضرات اپنی ڈیوٹی نہیں دیتے اور نجی ہسپتال یا کلینک کھول کے غریب عوام کو لوٹتے ہیں۔ وکلا نے ہسپتالوں پہ ہلا بول دیا اور ڈاکٹروں کی خوب مار کٹائی کی۔ اگلے دن ڈاکٹروں نے ریلی نکالی اور کچہریوں پہ ہلا بول دیا اور وکیلوں کی درگت بنائی۔

ریاست بھر میں گھمسان کا رن پڑا۔ ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹر اور وکیل زخمی ہوئے۔ ہسپتالوں میں وکیلوں کے ڈھیر لگ گئے اور کچہریوں میں ڈاکٹروں کے۔ وکیل زخمیوں کو درد کے ٹیکوں کی جگہ گائے بھینسوں کے ٹیکے لگائے گئے اور ڈاکٹروں پہ طرح طرح کے کیس ٹھوکے گئے۔ ہر طرف افرا تفری کا عالم تھا۔ ڈاکٹروں نے اپنی دکھ بھری داستانیں اخباروں میں شائع کیں اور وکلا نے اپنے ساتھ زیادتیوں کا ڈھنڈورا پیٹا۔

شہر کے ایک طرف ڈاکٹروں نے دھرنا دیا تو دوسری طرف وکلا نے۔ ایک طرف نعرے لگ رہے تھی ”یہ جو غنڈہ گردی ہے اس کے پیچھے کالا کوٹ ہے، دوسری طرف کا نعرہ تھا“ یہ جو غنڈہ گردی ہے اس کے پیچھے سفید اوور کوٹ ہے ”۔ اور ایک ادارہ ان کے نعرے سن کے بہت محظوظ ہو رہا تھا۔ مشکل سے ریاست کے کسی جراتمند وزیر کے کان پہ جوں رینگی اور آستین چڑھا کے رینگتا ہوا دونوں اداروں میں صلح کرانے پہنچ گیا۔ وزیر وکیلوں کے پاس پہنچا اور ان کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہا۔

مشتعل ہجوم نے اسے ہی گرم کیا اور اپنا غصہ اسی پہ ٹھنڈا کیا۔ اب باری ڈاکٹروں کے پاس جانے کی تھی سو اسے ایمبولینس میں ڈاکٹروں تک لے جایا گیا۔ لیکن ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر موجود نہ تھا کیونکہ سارے ڈاکٹر احتجاج کرنے نکلے ہوئے تھے۔ پولیس میں رپورٹ درج کرانے پہنچے تو عملہ موجود نہیں تھا۔ سب احتجاجی مظاہروں کا تماشا دیکھنے گئے ہوئے تھے۔ کیس کرنے پہنچے تو سارے وکیل بھی احتجاج پہ گئے ہوئے تھے بلآخر اسے کسی پیر کے پاس دم کرانے لے گئے اور وہیں چھوڑ آئے۔ دنیا بھر کے اخباروں میں سرخیاں چھپیں اور ریاست کی خوب نیک نامی ہوئی۔ دنیا بھر کے لوگوں نے وکیلوں اور ڈاکٹروں کی جراتمندی کو خوب سراہا۔ کیسے انسانی جانوں کا نذرانا پیش کر کے وہ اپنے حقوق کے لیے سر پہ کفن باندھ کے نکلے اور سرخرو ہو کے واپس لوٹے۔

کبھی ترقی پسند ریاست کے جبر کے خلاف احتجاج کیا کرتے تو ان کے مقابلے میں قدامت پرست کھڑے ہوجاتے اور ملک دشمن اور مذہب دشمن کے نعرے لگتے۔ میڈیا ترقی پسندوں کے احتجاج دکھاتا تو قدامت پرستوں کا پارہ چڑھ جاتا اور میڈیا والوں کے خلاف احتجاج ہوتے۔ کبھی انجینئرز کے احتجاج نظر آتے کی ریاست ان کو نوکری کے مواقع نہیں دیتی۔ جاب ڈھونڈ کے نکلتے تو تجربہ مانگا جاتا اور تجربہ حاصل کرنے نکلتے تو بھی جاب کی ضرورت پڑتی۔

سیاسی پارٹیوں کا بھی یہی حال تھی۔ ایک پارٹی اقتدار میں آتی تو دوسری دھرنا دیتی، دوسری اقتدار میں آتی تو تیسری دھرنا دیتی۔ خلائی ریاست میں عزت اسی لیڈر کو ملتی تھی جس کے وعدے اور ارادے خلا سے آگے کے ہوں۔ حقیقت میں بیشک بیتُ الخلاء تک ہی اس کی پہنچ ہو۔ مظلوم تھے تو بس ریاست کے غریب عوام جن کی نہ کوئی سنتا تھا نہ وہ کسی کو کچھ سنا سکتا تھا۔ بس کبھی کبھی کسی غریب کی گالیوں بھری ویڈیو وائرل ہوتی تو فارغ ٹائم میں ریاست کے چھوٹے بڑے سب ان کی وڈیوز سے تفریح حاصل کرتے۔

اقتدار میں آنے والوں میں طرح طرح کے سائنسدان نما آئٹم ہوتے تھے۔ کوئی آئن سٹائن سے بڑا سائنسدان تھا، کسی نے روشنی کی رفتار سے تیز ٹرین ایجاد کی تو کسی نے دنیا کی جیوگرافی کو ہی تہ و بالا کردیا تھا۔ جنات سے بجلی پیدا کرنے کے جدید طریقوں پر بھی کوششیں ہو رہی تھیں۔ کچھ نے تو اتنی ترقی کی تھی کہ بارش اور برفباری پہ بھی کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور جب چاہیں برفباری یا بارش برسا سکتے تھے۔ جو کچھ نہیں کر سکتے تھے ان میں سے کسی سیاستدان نے کسی نوجوان لیڈر پہ جان قربان کر دی تھی تو کسی نے فقد اللہ کو جان دینی تھی۔

اس ریاست کے مورخین نے ریاست کے بارے میں بہت لکھنے کی کوشش کی مگر کوئی کامیاب نہیں ہو سکا۔ کسی کو لکھنے سے پہلے لفافے ملے تو کوئی لکھنے کے بعد بوری والے لفافے میں ملے۔ اس کہانی میں اخلاقی سبق ڈھونڈنے کی کوشش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ آج تک اس ریاست والوں کو کوئی سبق نہیں ملا تو آپ کو کیا ملے گا۔ جب خلائی رہاست میں کوئی اخلاقی سبق نظر آیا تو اگلی کہانی میں ضرور لکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).