مُنّا بھائی بنام ریاست پاکستان


می لارڈ،

میں آپ کی توجہ پی آئی سی میں پیش آنے والے حالیہ تاریخی واقعہ کی طرف مبزول کرانا چاہتا ہوں جس نے معاشرے پہ انتہائی مثبت اثرات مرتب کیے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ بے گناہوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا ہے۔

1۔ جناب والا، یہ پاکستان کی پہلی لڑائی ہے جو ذات پات، رنگ و نسل، مذہب و فرقے سے ماورا لڑی گئی۔ پاکستان جیسے قدامت پسندانہ حبس زدہ ماحول میں پینٹ کوٹ میں ملبوس ایسی پروفیشنل لڑائی کو تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی مانند سمجھنا چاہیے۔

2۔ وہ ویڈیو جس کو بنیاد بنا کر لڑائی شروع ہوئی، کچھ ناپسندیدہ باتوں کے علاوہ شاعری اور حِس مزاح کا ایک شاندار ٹک ٹاک بھی ہے جس نے کئی نقادوں کو یہ سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ ڈاکٹرز کا زاویہ نظر صرف میڈیکل کی کتابوں اور نرسوں تک محدود نہی بلکہ وہ ادب اور فنون لطیفہ سے بھی شغف رکھتے ہیں۔

3۔ پی آئی سی اپنے قیام سے لے کر آج تک مریضوں کو واک اور ایکسرسائز کی تلقین کرتا رہا ہے لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ سینکڑوں لوگوں نے تین سے چار کلومیٹر تک نہ صرف پیدل واک کی بلکہ ہر جوڑ کی مشقی‍ں بھی کیں۔ صحتمند زندگی گزارنے کی طرف یہ پہلا اجتماعی قدم ہے۔

4۔ وہ مریض جنہوں نے اس تصادم میں جان کے زیاں کو غم کی تلافی سمجھ لیا، جاتے جاتے جاتے گورنمنٹ کی جیب سے دس دس لاکھ نکلوا کے لے گئے۔ جانا تو ویسے بھی تھا انہوں نے ایک نہ ایک دن، آخر دل کے ہاتھوں کون بچا ہے، لیکن زندگی کے افسانے کا ایسا انجام لواحقین کے لئے کسی سپرہٹ المیہ ڈرامے سے کم نہی۔

5۔ جہاں تک نقصانات کی بات ہے تو پولیس کی گاڑی جلانے میں سب سے کم نقصان ہوتا ہے کیونکہ اس میں پٹرول ہمیشہ ریزرو ہی رہتا ہے لہذا آگ پھیلنے کا اندیشہ نہی ہوتا۔ ہسپتال کے اکثر شیشوں کو ویسے ہی کچھ دل جلوں نے اپنے موبائل نمبر لکھ کر رنگین کیا ہوا تھا۔ اوپر سے اپنے نام کے آگے دل بنا کے اس میں معاشرے کے ظلم کا تیر بھی پیوست کر دیا جاتا تھا، اب دل والے ہسپتال میں ایسے زخمی دلوں اور ٹوٹے شیشوں کا کیا کام، اچھا ہوا بدلے گئے۔

6۔ رہ گئی بات آنسو گیس کی تو کیا یہ کسی نعمت سے کم ہے کہ پتھر آنکھوں سے بھی آنسو چھلک آے، دل کی سموگ ختم ہوئی اوراب سب کو منظر صاف نظر آتا ہے۔

یہ منظر کہتا ہے کہ لڑائی ویڈیو کی نہیں بلکہ مریضوں کے ساتھ روا جانے والے سرکاری ظلم سے شروع ہوئی ہے جو انہیں زکوۃ کے نام پہ قطاروں میں کھڑا کر کے دوائیاں بانٹ کے انسانوں کی تذلیل کرتا ہے۔ اور ڈاکٹروں اور وکیلوں کو آپس میں لڑوا کے ہائی کورٹ سے جیل روڈ تک گھنٹوں غائب ہو جاتا ہے، مسیحاؤں کو ایم ٹی آئی ایکٹ کے نام پہ سیٹھوں کے حوالے کر دیتا ہے اور وکیلوں کو دہشت گرد بنا دیتا ہے۔

جس دن یہ سفید اور کالے کوٹ اپنے حقوق کے لئے شیروانیوں اور وردیوں کے خلاف اکٹھے اٹھ کھڑے ہوے، جان لیجیے کہ تاریخ کی عدالت میں جناح اپنا مقدمہ جیت گئے۔

تب تک ان بے گناہوں کو رہا کیجیے کیونکہ اصل ملزم ابھی تک مفرور ہے۔

I rest my case، me lord!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).