ذہنی بُتوں کے سائے تلے


عدالت میں موجود سبھی لوگ توقیر پر نظریں جمائے اس کے آخری جواب کے منتظر تھے۔ مگر ہمیشہ کی طرح آج بھی توقیر خاموش تھا۔ توقیر کی خاموشی اُسے پھانسی کے پھندے تک پہنچا کر ہی دم لینے والی تھی۔ آخر کار اس کے وکیل نے اس کے پاس جا کر اس کا ہاتھ تھاما اور اس کی طرف تسلی بھرا اشارہ کیا تاکہ اُسے یہ احساس دلایا جائے کہ یہ سچ سننا سب کے لئے بہت ضروری ہے۔ وکیل صاحب نے توقیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، دیکھو توقیر! اگر آج تم ہر بار کی طرح پھر خاموش رہو گے تو تمہاری خاموشی کی وجہ سے پتہ نہیں کتنے اور توقیر اسی طرح خاموش موت مریں گے اور خدا تمہیں اُس جرم کا بھی قصوروار سمجھے گا کیا جواب دو گے اپنے خدا کو پھر؟

توقیر ایک دم چونک گیا، اور اس کی آنکھوں میں وحشت سے بھری لالی ختم ہونے لگی، ایک آنسو کا قطرہ اس کی آنکھوں سے گرا اور وہ زور زور سے رونے لگا۔ وکیل صاحب نے ہلکی سی مسکراہت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا اب بتاؤ تمہارے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ تم نے اپنی بیوی کو قتل ہی کر ڈالا، ہم نے تو سنا ہے کہ ہم اسے بہت پیار کرتے تھے۔

توقیر نے جج صاحب کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مانتا ہے کہ اس نے قتل کیا اور وہ عدالت سے کسی قسم کی رعائت کا طلب گار نہیں ہے۔ مگر وہ اپنی کہانی اس لئے سنانا چاہتا ہے کہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے نظریات صرف نظریات ہی نہیں ہوتے ان کے ساتھ ہمارے گہرے جذبات اور اعمال بھی جڑے ہوتے ہیں۔ ہم جو سوچتے ہیں وہ ہمارے ذہن کے بت بن کر ساری زندگی ہمیں اپنے سامنے سر جھکانے پہ مجبور کر دیتے ہیں۔ اور ہم ان کے بہکاوے میں آکر وہ کچھ کر گزرتے ہیں جو ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہی ہماری شخصیت کا آئینہ بن جاتے ہیں۔

پھر وہ اپنی زندگی کے تمام راز کھولتے ہوئے جج صاحب کو بتانا شروع کرتا ہے کہ وہ ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والا بچہ تھا۔ بچپن سے ہی وہ ذہین تھا اسی وجہ سے سبھی اس کی بہت عزت کرتے تھے۔ جب اسے یونیورسٹی بھیجا گیا تو اس کی زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ وہاں اس کی ملاقات ایک پروفیسر سے ہوئی جس کی باتوں نے اسے بہت متاثر کیا۔ وہ چند سوال جو اس کے ذہن میں ابھرے ان کے جوابات کے لئے وہ مختلف پروفیسرز کے پاس گیا مگر اس کے دل کی تسکین نہ ہونے کی وجہ سے سوال پہ سوال پوچھنا اس کی فطرت کا حصہ بن گیا۔ آخر کار اسے ایسے لوگ مل ہی گئے جو اس کے ذہن کو تسکین پہنچاتے گئے۔

اسے اپنی کلاس سے چار ایسے دوست مل گئے تھے جو اس کی طرح کے تھے۔ دین کو پڑھے بغیر اس کی باتوں پہ لمبی لمبی بحثیں کرنے والے۔ اعتراضات کرنے والے ہر جگہ مل ہی جاتے ہیں۔ خیر وہ اس کی کچی شعوری زندگی کا پہلا سفر تھا۔ غلطی بس یہ ہوئی کہ سمجھے بغیر ہی کسی کی باتوں میں آ گیا۔ روز لمبی بحثوں اور اعتراضات نے اسے مذہبی بیزاری میں مبتلا کر دیا تھا۔ اور اس کے کچے ذہن میں دین اور مذہب کی تصویر ماضی کی لڑائیوں کے نتیجے میں بہنے والے خون کے چھینٹوں سے مدھم پڑتی چلی گئی۔

ایک بار اس کی کلاس میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔ اس کے دوست کسی شریف طبیعت والے مولوی سے Homo Sexuality  پہ بحث کر رہے تھے۔ چونکہ اب وہ شعوری ترقی کی کافی منزلیں طے کر چکا تھا اس لئے اس نے بھی بحث میں اپنے دلائل دیے اور اس نے انسانی فطرت اور اس کے جذبات کے بے شمار دلائل دیے اور وہ بحث جیت گیا۔ کسی کے پاس اس کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ تھا۔ یہ اس کی زندگی کی پہلی منطقی فتح تھی، جس کا جشن اس کے دوستوں نے اس کے ساتھ یونیورسٹی کینٹین میں منایا۔ اس کے دوستوں کا اس مولوی طبع طالبِ علم سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں تھا بس وہ اس کے مولوی طبع ہونے سے بیزار تھے۔

وقت گزرتا گیا، اس کی سوچ سیکولر مفکریں کی کتابیں پڑھ پڑھ کر اور پختہ ہو تی گئی۔ اب وہ ہر بات کا منظقی جواز تلاش کرتا پھر اپنے نقطہ نظر سے اس بات پہ ردِعمل کرتا۔ مذہبی باتیں اب اس کو ایک بچکانہ اور احمکانہ کام لگنے لگ گیا تھا۔ وہ ایک سیکولر سٹیٹ کا حامی تھا جہاں ہر کسی کو آزادانہ اپنے جذبات کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا حق ہو۔ اپنے نظریات میں وہ اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ اب وہ اخلاقی قوانین کو بھی سائنس کی کسوٹی پہ پرکھنے کا عادی ہو چکا تھا۔

پھر جب اس کی پڑھائی ختم ہوئی تو اسے ایک جگہ لیب اسسٹنٹ کی اچھی نوکری بھی مل گئی۔ ان دنوں اس کے ماں باپ گزر چکے تھے، اس نے اپنی پسند سے اپنی ایک یونیورسٹی فیلو کے گھر رشتہ بھیجا۔ کچھ ٹال مٹول کے بعد اس کا رشتہ طے پا ہی گیا۔ وہ اس لڑکی کو بہت پسند کرتا تھا۔ وہ لڑکی اس کی نظر میں دوسروں سے بہت منفرد تھی۔ وہ دوسری لڑکیوں کی طرح لڑکوں کی صحبت میں زیادہ نہیں رہتی تھی۔ اپنے کام سے کام رکھنے والی پُر کشش لڑکی سے اس کی شادی اس کی زندگی کی ایک بڑی خواہش تھی۔

توقیر اس لڑکی کو کس قدر پسند کرتا تھا یہ راز اس نے اسے شادی کی پہلی رات بتایا تھا۔ شروع شروع میں سب کچھ بالکل ٹھیک لگ رہا تھا مگر ایک ماہ گزرتے ہی اس کی بیوی اس سے کترانے لگ گئی تھی۔ وہ ایک مکمل انسان تھا۔ ہرکامل مرد کی طرح گہری جذباتی ہم آہنگی اس کی فطرت میں شامل تھی۔ مگر کچھ عرصہ بعد اسے اپنے ادھورے پن کا گہرا احساس ہونے لگا۔

انکی ازدواجی زندگی، زندگی کے دوسرے معاملات میں بالکل صحیح تھی۔ مگر جذباتی اور جنسی ہم آہنگی سے خالی تھی۔ توقیر کی زندگی اس میٹھے احساس کا مزہ چکھنا چاہتی تھی۔ اس فطری رویے کو کسی دلیل کی نہیں مرہم کی ضرورت تھی، جو کہ ایک شوہر کو اس کی ذات کی تکمیل کے لئے اشد ضروری ہوتی ہے۔ آپ اس مرد کی جذباتی کیفیت کا انداز ہ کیسے لگا سکتے ہیں جو اپنی بیوی سے ملاپ کے دوران اس کے گرم جذبات کا مزہ چکھنے کی بجائے کراہت بھرے لہجے اور بیزاررویے کی جھلک کے گہرے احساس سے کس قدر ناگواری محسوس کرتا ہو۔

وہ ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی، اپنے حقوق وفرائض سے واقف تھی۔ زمانے کی روایات میں بندھی غلط رستہ تو تلاش کر سکتی تھی مگر اپنے جذبات کا برملا اظہار اس کے لئے شاید ممکن نہ تھا۔ مگر ایک انسان کب تک چپ رہ سکتا ہے۔ ایک روز اس نے توقیر کو اپنے پاس نہ آنے کا کہا تو توقیر چونک گیا وہ گہری ہیجانی کیفیت میں اس سے وجہ پوچھنا چاہتا تھا مگر وہ وہ جواب نہیں سننا چاہتا تھا جو اسے کبھی یونیورسٹی کی بحثوں نے سکھایا تھا۔

جو اس نے اس مولوی طبع فیلو کو دیا تھا۔ اپنے لئے اُس جواب کے گہرے ہیجانی دباؤ اور اس رشتے کے تقدس کو یوں پامال ہوتے سوچ کر اس کی راتوں کی نیند حرام ہو چکی تھی۔ اس کا رویہ دن بدن تلخ ہوتا جا رہا تھا۔ دونوں جذباتی دور کا شکار ہو چکے تھے۔ ان کے دل پُر کشش جذبات سے محروم ہو چکے تھے۔ جو شروعاتی دنوں دونوں میں موجود تھا۔

توقیر کی ذات میں ایک نئے انسان نے جنم لینا شروع کر دیا تھا۔ اس کی بے چین روح اپنے سکون کے لئے طرح طرح کے جواز ڈھونڈنے لگی تھی۔ وہ ان نظریات سے جو پہلے اس کی فتح کا ثبوت تھے، مکمل بیزار ہونے لگا تھا۔ اسے سکون کی تلاش تھی۔

ایک دن آفس سے تھکا ہارا جلد گر آیا تو اس کی بیوی نے بڑے عجیب سہمے انداز میں تحقیق کے بعد دروازہ کھولا۔ کمرے میں گیا تو دیکھا کہ اس کی ایک یونیورسٹی فی میل فیلو اس کے کمرے کے باتھ روم سے منہ دھوتی ہوئی باہر نکلی توقیر کو دیکھتے ہی تھوڑا گھبرائی اور کوئی بہانہ کر کے جلدی سے اپنا بیگ اٹھایا اور چلی گئی۔ توقیر نے اپنی بیوی کے لباس اور اس کے چہرے کے تاثرات اچھی طرح پڑھ لئے تھے۔ سارے نظریاتی بت ایک دم جیسے کرچی کرچی ہو چکے تھے۔

کچھ بھی سوچے بنا اس نے اپنی بیوی سے ایک ایسا سوال پوچھا کہ وہ جھنجھلا کر رہ گئی۔ کیا تم سمجھ گئی ہو کہ میں تم سے کیا پوچھنے والا ہوں؟

وہ اس راز کا بوجھ اٹھائے تھک چکی تھی، اب اس نے گہری سانس لی اور کہا ہاں! تم نے صحیح سوچا! تمہیں کوئی اعتراض ہے تو بتاو؟

یہ بات سنتے ہی اس کامل شوہر کی کیا ذہنی کیفیت ہو سکتی ہے اور پھر وہ کیا کچھ کر جائے، توقیر نے جج صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، آپ نہیں جان سکتے سر! یہ وہی شوہر جان سکتا ہے جو اپنے ہی ذہن کے بتوں کے ہاتھوں مارا گیا ہو۔

پورا ہال ایک غم ناک خاموشی میں گم تھا۔ جج صاحب نے اپنے چشمے صاف کیے اور توقیر کو عمر بھر کی قید با مشقت کی سزا سنائی اور چلے گئے۔

وکیل صاحب کافی دیر تک اس مجرم کو گرفتاری کی حالت میں جاتے دیکھتے رہے پھر آخر پہ وہ آسماں کی طرف دیکھ کر گہری سانس لیتے ہیں اور کہتے ہیں۔ الحمد اللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).