سقوطِ ڈھاکہ: غلطی کہاں ہوئی؟


چودہ اگست 1947 ء کو اپنے قیام کے وقت پاکستان دو الگ جغرافیائی مسلم اکثریتی حصوں مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا۔ ملک میں پہلے باقاعدہ انتخابات 1970 ء میں ہوئے جس میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی عوامی لیگ کو واضح اکثریت حاصل ہوئی جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کا پانسہ بھاری رہا۔ تاہم سیاسی رہنماؤں کی جانب سے حصول اقتدار کی کوششوں، فوجی قیادت کی غلطیوں اور بھارتی مداخلت کے باعث سولہ دسمبر 1971 ء کو ملک تقسیم ہو گیا۔

آج مشرقی پاکستان کو جدا ہوئے اڑتالیس سال گزر چکے ہیں لیکن اس موضوع پر ہونے والی بحث کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی کہ ملک دو لخت ہونے کا اصل ذمہ دار کون تھا۔ سجاگ نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کیا محرکات تھے جس کی وجہ سے سقوطِ ڈھاکہ جیسا سانحہ پیش آیا۔ ڈاکٹر رضوان کوکب جی سی یونیورسٹی کے شعبہ پاکستان سٹڈیز میں بطور پروفیسر تعینات ہیں اور ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان بھی ’مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے اسباب‘ ہے۔ ان کے مطابق عام شہریوں کا خیال یہی ہے کہ بنگلہ دیش 1970 ء کے انتخاب کے بعد اقتدار کی کشمکش میں ملک ٹوٹ گیا جبکہ کچھ لوگ اسے 1966 ء میں ہونے والی اگرتلہ سازش سے جوڑتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حقیقت میں مغربی پاکستان کے لوگوں میں دوری اور محرومی کا احساس دسمبر 1948 ء میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹوٹنے کی تین سے چار بڑی وجوہات ہیں جنہیں الگ الگ دیکھنا بہت ضروری ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سب سے پہلے مسئلہ زبان اور تہذیب کا تھا کیونکہ بنگالیوں کا رہن سہن مغربی پاکستان کے لوگوں سے بہت مختلف تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 1948 ء میں قائد اعظم کی جانب سے اردو کو بطور قومی زبان منتخب کرنے کے اقدام نے جلتی پر تیل کا کام کیا کیونکہ مشترکہ پاکستان میں پچپن فیصد لوگ بنگالی زبان بولتے تھے۔

ان کے خیال میں اگر اس وقت ایک کی بجائے دو قومی زبانوں کا انتخاب کر لیا جاتا تو یہ بات پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہو سکتی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ زبان کے علاوہ اقتدار، ملکی معیشت اور دستور میں بھی بنگالیوں کے مطالبات کو ترجیح نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام واقعات 1970 ء سے پہلے کے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملات ایک ہی سال میں خراب نہیں ہوئے بلکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی بنگالی احساسِ محرومی کا شکار ہو چکے تھے۔

عمر یعقوب جی سی یونیورسٹی کے شعبہ مطالعہ پاکستان اور شعبہ ہسٹری میں بطور لیکچرار فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت اور فوج بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں برابر کی ذمہ دار تھی۔ انہوں نے کہا کہ شیخ مجیب کی جانب سے الیکش سے پہلے جو چھ نکات پیش کیے گئے ان میں سے چار نکات پر بات چیت سے معاملات طے پا سکتے تھے لیکن الگ کرنسی اور الگ فوج کا مطالبہ بالکل غلط تھا جسے اس وقت بغاوت کے مترادف سمجھا گیا۔

ان کے بقول ’ملکی معاملات میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی ہیں جس کا عملی ثبوت اٹھارہویں ترمیم ہے۔ اس ترمیم میں صوبوں کو اس سے زیادہ خود مختاری مل چکی ہے جس کا مطالبہ شیخ مجیب کر رہے تھے۔ ‘ ان کے خیال میں مجیب الرحمن کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے چھ نکات کی بجائے اقتدار حاصل کر کے عوام کو اعتماد میں لے کر اس پر قانون سازی کروانے کی کوشش کرتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے بڑی ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو پر تھی لیکن وہ الیکشن ہار جانے کے بعد اپوزیشن میں جانے کے لیے تیار نہیں تھے اور اپنی ذاتی انا کے لیے انہوں نے ’ادھر تم، ادھر ہم‘ کا نعرہ لگا دیا۔

انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کے بعد ذمہ داری فوج پر تھی کیونکہ جنرل یحییٰ خان اس وقت صدر تھے اور ان کے پاس طاقت بھی تھی لیکن انہوں نے صرف تماشا دیکھا۔ ان کا ماننا ہے کہ حالات کو سدھارا جا سکتا تھا لیکن اپنی ذات کے پجاری تین افراد نے ملک کی بجائے اپنے ذاتی نفع نقصان کا حساب لگایا اور اسی کوشش میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ پروفیسر ثناء اللہ سرگودھا یونیورسٹی میں پینتیس سال مطالعہ پاکستان پڑھانے کے بعد اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ان کے مطابق مشرقی و مغربی پاکستان کے تعلقات میں خرابی فروری 1952 ء میں ہوئی جب بنگلہ دیشی طالب علموں کا ڈھاکہ میں پولیس کے ہاتھوں قتل عام کروایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آزاد ممالک میں ہر فرد کو اظہارِ رائے کی اجازت ہوتی ہے اور یہ بات بنیادی انسانی حقوق کے ذمرے میں آتی ہے لیکن بنگالیوں کو اپنے حقوق کے لیے بولنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ ان کے بقول ’اگر شیخ مجیب کو 1968 ء میں جیل میں ڈالنے کی بجائے اس سے مذاکرات کر لیے جاتے تو شاید مجیب الرحمن وہ چھ نکات نہ پیش کرتے جسے اب پاکستان سے علیحدگی کی وجہ مانا جاتا ہے۔

’ ان کا کہنا تھا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد شیخ مجیب بنگلہ دیش کے صدر بنے جبکہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنھالا لیکن بعد ازاں دونوں ہی فوج کے ہاتھوں اپنی جان سے گئے۔ ‘ اگر دونوں سیاست دان مفاہمت کی راہ اپناتے اور آپس میں لڑنے کی بجائے فوج کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے مل کر جدوجہد کرتے تو شاید آج سیاسی حالات اور ملکی جغرافیہ مختلف ہوتا۔ ’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).