انور مقصود کے خلاف عالم بالا میں اشتعال


آج نماز فجر ادا کرنے کے بعد مجھے دوبارہ لیٹے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی، نیم بے خوابی کا عالم تھا کہ یک لخت کمرے میں نور سا پھیل گیا۔ پل بھرمیں سارا منظر بدل گیا اور خود کو کسی سبزہ زار میں پایا ابھی ورطہ حیرت سے نکل نہ پایا تھا کہ خود کو چند افراد کہ درمیاں پایا کچھ سنبھلنے کے بعد دیکھا کہ میں تو ان سب کو پہچانتا ہوں۔ مارے حیرت اور خوشی کے غش کھانے ہی والا تھا کہ ساتھ بیٹھے شخص نے حوصلہ دیا۔

میں نے کہا ”آپ میر ہیں نا۔ میر صاحب۔ میر تقی میر“۔ کہنے لگے ہاں بیٹا میں میر ہوں دیکھو تمہیں ہم سے نسبت ہے اس لیے خاص تمہیں مدعو کیا ہے۔ دیکھو سارے ادیب اور شعراء آئے ہیں۔ دیکھتا ہوں کہ غالب سے جالب تک سبھی شعرا اور ادیب موجود ہیں سب کو سلام کہا۔ سب خوش دکھائی دیتے تھے۔ میر صاحب نے کہا بیٹا تمہاری آمد کی وجہ سے خوش ہیں۔ آج تمہارے ذمے ایک اہم کام سونپتے ہیں۔ حیرت سے عرض کیا میر صاحب ”میں“۔

کہنے لگے ہاں تم دیکھو تم اولاد رسول ہو نہ تو تم کبھی روزے قضا کرتے ہو نہ ہو کوئی نماز چھوڑی ہے۔ ابن انشاء نے لقمہ دیا کہ ”میر صاحب یہ اگر ہندستان کابادشاہ ہوتا تو کسی بھائی کو بھی نہ چھوڑتا“۔ میر مسکرائے اور میری جانب دیکھ کر کہا بیٹا چونکہ تم ہمارے معتمد ہو سو تمہیں ایک اہم کام انجام دینا ہے۔ میں نے عرض کیا ”حکم کیجئیے میر صاحب“۔ کہنے لگے ایک شخص ہے جو ہم سب کو بدنام کیے جا رہا ہے۔ ٹی وی پہ آتا ہے۔

مشہور ہے اور جب سے اسے دیکھا ہے یہ ایسا ہی ہے وہی سفید بال اورسفید مونچھیں۔ میر صاحب کا اشارہ پا کر سمجھ گیا کس کی بات کر رہے ہیں عرض کیا ”پر میر صاحب وہ تو بڑے اچھے انسان ہیں“۔ خاک اچھا ہے۔ خدا جانے برخوردار تمہارے ہاں اچھائی کسے کہتے ہیں۔ بدنام کر کے رکھ دیا ہے ”علامہ اقبال نے جل کر کہا تو پاس سے ہی سے غالب نے پوری صراحی سامنے رکھ دی۔ غٹا غٹ پی گئے اور خاموش ہوئے تو مرزا گویا ہوئے کہا“ دیکھو سید زادے یہ شخص ہمارے خلاف پروپگینڈہ کر رہا ہے۔

شعروں کی غلط تشریح بتاتا ہے لوگوں کو [اقبال پھر سے بپھرنے لگے ]اور ہمارے ساتھ ملاقاتوں کے من گھڑت قصے سناتا ہے [اب کہ جون بے خودی میں سر ہلاتے کہنے لگے بھئی ”قطعی جاہل انسان ہے، جھوٹا آدمی ہے۔ “ پطرس نے انہیں رام کیا] مرزا کی بات مکمل ہوئی تو فراق ان کی طرف متوجہ ہوئے کہنے لگے کہ یہ پروپگینڈہ تو آپ کے دور کا لفظ ہی نہیں اور ایسے لفظ کیا بلاغت کے خلاف نہیں؟ مرزا نے کہا ”تیل لینے گئی بلاغت جس کام پہ جمع ہوئے ہیں اس پہ دھیان دو“ [مرزا کو آج کے لونڈوں لپاڑوں کی بولی بولتا دیکھ جی خوش ہوا] مرزا نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ”تم اب دنیا والوں کے سامنے ہمارا مقدمہ رکھو گے“ میں نے کہا ”جیسے آپ کہیں“ حضرت علامہ نے کہا کہ ”دیکھو سب سے پہلے تو لوگوں پر یہ واضح کرنا کہ نہ تو ہم میں سے کوئی اس سے ملتا ہے نہ ہی خط لکھتے ہیں۔

” عرض کیا“ جی ضرور شک تو مجھے شروع دن سے تھا اس شخص پہ۔ ”[بھلا کوئی اس جہان سے کیسے خط و کتابت کر سکتا ہے بالکل ہی غیر معقول بات ہے یہ تو۔ ہاں جس کیفیت سے میں گزر رہا تھا اس میں پوری صداقت ہے“ اتنے میں جالب نے کہا کہ ”صاحبو ہم مصلحت سے کام کیوں لے رہے ہیں اس مصلحت کو میں نہیں مانتا۔ بھئی ہم لوگ انور مقصود کی بات کر رہے میں۔ “ میں نے سر ہلایا اور کہا ”جی میں سمجھ گیا تھا۔ “ اور جالب نے بات جاری رکھی کہا کہ اس نے کیسے شعروں کی من گھڑت تشریح کی ہے ذرا دیکھو تو وہ علامہ کے نجم و قمر والے شعر کو کیا سے کیا بنا دیا۔

علامہ فرمانے لگے ”اس روز کے بعد سے روز رات کو گھر کے باہر بوٹوں کی آوازیں آتی ہیں۔ نیند حرام ہو گئی ہے۔ لا حول ولا۔ “ اور وہ محمود اور ایاز والے قصہ کو کتنا غلط رنگ دیا بلکہ اپنی طرف سے ایک جھوٹی داستان بھی جوڑ دی۔ علامہ کو برہم دیکھ کر فیض ایسے بردبار شخص سے بھی نہ رہا گیا لہجہ وہی دھیما پر شکایت میں ڈوبا ہوا ”بھئی بات یہ ہے جتنی غلط فہمی ابن انشاء نے میرے بارے پھیلائی یہ صاحب تو ان کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں“ اس پر ابن انشاء کچھ جھینپ گئے۔

ابھی فراز اور باقی حضرات اپنا مدعا رکھنے کو پر تول ہی رہے تھے کہ قائد آگئے سب احتراما خاموش ہوئے۔ علیک سلیک کے بعد میری طرف اشارہ کر کے پوچھا یہ کون ہے میں نے خود ہی اپنا تعارف کرایا تو غالب کہنے لگے کہ میں نے تو میر صاحب کو قرۃالعین کا نام تجویز کیا تھا پر وہ پی ایچ ڈی کی تھیسز میں مصروف تھی تو یہی دستیاب تھا۔ قائد نے پوچھا کیوں بلایا ہے۔ پطرس نے وجہ بتائی۔ تو قائد گویا ہوئے ”جتنے جھوٹے قصے انور نے مجھ سے متعلق گڑھے ہیں اس اعتبار سے تو مجھے اب تک اس کو گاڑ دینا چاہیے تھا۔

پر کیا آپ سب پر یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کس قدر اکیلا پڑ گیا ہے؟ وہ ہماری تہذیب، ادب، اخلاق کے چند آخری لوگوں میں سے ہے۔ وہ اپنی تنہائی کے اشکوں کو مزاح کا جامہ پہناتا ہے۔ علامہ کو مخاطب کر کے کہنے لگے ”اب آپ ہی کہو کہ ادھر کی گئی بات پر یہاں بوٹوں کی آوازیں آتی ہیں تو وہاں کیا کیا نہ گزرتی ہوگی ان پر۔ باتیں تو انشاء نے بھی کتنی کی ہیں پر دیکھو بغل میں بیٹھا ہے فیض کے۔ انور مقصود اردو کی لاش پر نوحہ کناں ہے۔

ادب کے جنازے پہ مرثیہ پڑھ رہا ہے۔ ”اس پر جوش نے قائد سے کجھ کہنے کی اجازت چاہی۔ قائد نے اثبات میں سر ہلایا تو اپنی کتاب سے اقتباس نقل کیا“ اگر ان پر سکندر اعظم کو بھی حکمران مقرر کیا جائے تو وہ بھی کسی دیہاتی رنڈی کا بھڑوا لگنے لگے گا۔ ”یہ بات اگرچہ لکھنو والوں کے بارے میں کہی گئی تھی پر اس قوم پر بھی فٹ آرہی ہے۔ موقع اچھا تھا سو چپکا دیا۔ سب نے قائد کی حامی بھری۔ اقبال نے کہا“ بھئی انور کے تو نام میں ہی نور ہے۔

اور نور سے بھلا کس کو شکایت ہوگی ”مرزا نے کہا“ مجھے تو اب آم سے بھی زیادہ انور مقصود پسند ہے ”میر نے کہا“ اس کا درد تو مجھ سے بھی عظیم ہے ”جون نے کہا“ سچ کہوں تو ایک دو خط لکھے تھے میں نے ”جوش نے مجھے مخاطب کر کے کہا“ بھئی تم یہاں بیٹھے احمق لگ رہے ہو چلو بھاگو ”میں نے کہا ایک تو ذلیل کر دیا اوپر سے میرے ہی خواب سے مجھے نکال رہے ہو؟ میں آپ سب کا نہیں آپ سب میرے محتاج ہیں“ اس پر پطرس نے کہا ”محتاج تھے“ فیض نے صلاح دی کہ اگر عقلمند ہو تو اس قصے کا ذکر نہ کرنا کسی سے کوئی نہیں مانے گا یہ باتیں۔ میں نے حامی بھری اور دل میں سوچا کہ چانس لے کے دیکھتے ہیں۔

نوٹ: قرۃ العین سے مراد ہرگز قرۃالعین حیدر نہیں ہیں بلکہ راقم کی دوست [سمجھ لو] ہیں کہ جن کے کہے پر یہ سچا خواب قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).