ہمارے دفاتر اور ورکنگ وومن کی جنسی ہراسمنٹ


یقیناً ہم پہلے امتحان، پہلے انٹرویو اور نوکری کے پہلے دن بمشکل ہی اپنے اعصاب کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ صبح پانچ بجے الارم کے بجنے سے پہلے ہی میری آنکھ کھل چکی تھی۔ میں نے نماز پڑھنے کے بعد اللہ تعالٰی سے اپنے انٹرویو کی کامیابی کے لیے ڈھیروں دعائیں کی۔ ناشتے سے فراغت کے بعد کپڑے بدلے، ضروری کاغذات اپنے ساتھ لیے انٹرویو کے لیے نکل گئی۔ گھر سے آفس کے تمام راستے میں جتنے ذکر اذکار یاد تھے سب پڑھ ڈالے۔ آفس پہنچ کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کا راستہ پوچھا اور منزل کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔

ریسیپشن پہ اپنا نام درج کروا کہ میں انتظار گاہ میں بیٹھ گئی۔ انتطار گاہ میں مجھ سمیت پانچ افراد بیٹھے اگلے حکم کا انتظار کرنے لگے۔ ساڑھے نو کے قریب ایک لڑکا ہمارے پاس آیا، اپنا تعارف کمپنی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کر طور پر کروایا۔ سب سے تعلیمی اسناد اور ضروری کاغذات سے متعلق پوچھا۔ انٹرویو رولز اور آفس پالیسی سمجھانے کے بعد انتظار کرنے کا کہہ کہ وہ چلا گیا۔ اس سے بات کر کے ہم سب کی گھبراہٹ میں کافی حد تک کمی آ چکی تھی۔

ساڑھے گیارہ بجے ہمیں ڈائریکٹر صاحب کے آنے کی اطلاع ملی۔ دل کی دھڑکنیں ایک دم تیز ہو گئیں۔ ہمیں ایک ایک کر کے ڈائریکٹر صاحب کے پاس بلایا گیا۔ میرا چوتھا نمبر تھا۔ اپنی باری پہ میں ڈائریکٹر صاحب کے کمرے میں گئی۔ وہاں وہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی موجود تھا۔

مس شرمین، تشریف رکھیے۔ ڈائریکٹر صاحب نے خوشگوار لہجے میں کہا۔

میں شکریہ کہہ کے سامنے بیٹھ گئی۔

ڈائریکٹر صاحب کافی بارعب اور نرم دل شخصیت کے مالک تھے۔ وہ میرے کاغذات دیکھنے کے ساتھ ساتھ سوال کیے جا رہے تھے۔ جن کا جواب میں پر اعتماد لہجے میں دیے جا رہی تھی۔

سب کو انٹرویو کے بعد انتظار گاہ میں بیٹھنے کا کہا گیا۔ حیرت انگیز طور پر سب کا انٹرویو اچھا ہوا۔ ایک گھنٹے بعد اسسٹنٹ ڈائریکٹر انتظار گاہ تشریف لائے۔

سب سے پہلے آپ سب کو انٹرویو میں کامیابی پر مبارکباد۔ ہمیں ان آسامیوں پر تین سو درخواستیں بھجوائی گئی تھی جن میں آپ لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ اب آپ نے ثابت کرنا ہے ہمارا انتخاب درست تھا۔ ایک دو دن میں آپ کو آگاہ کر دیا جائے گا کہ آپ کی پوسٹنگ شہر کی کس برانچ میں ہے، اسسٹنٹ ڈائریکٹر صاحب پرجوش لہجے میں بولے۔

ہم نے ایک دوسرے کو نیک تمناؤں کے ساتھ مبارکباد دی اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ گھر آ کے میں خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔ امی کو آتے ہی گلے لگایا اور انٹرویو میں کامیابی کی خبر سنائی۔ امی کے ہونٹوں پہ مسکان کے ساتھ آنکھوں میں نمی بھی تھی۔

میری بچی اللہ تجھے تیرے مقصد میں کامیاب کرے۔ اپنے ابا کے کندھے سے کندھا ملا کے تو نے گھر کی بیٹی نہیں بیٹا ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ امی نے میرا ماتھا چوم لیا۔

ابا کی ایک چھوٹی سی سرکاری نوکری تھی ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن سے گزارا کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ ابا کی گھٹن دیکھ کے میں نے مزید پڑھائی کا ارادہ ترک کر کے نوکری کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ میرے تین چھوٹے بہن بھائی ابھی سکول جاتے تھے۔

میں ابا کے پاس گئی اپنے انٹرویو میں کامیابی کا بتایا۔ اور دن کی ساری داستان سنائی۔ ابا نے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور کامیابی کی دعائیں دی۔

ابا پیار سے بولے، شرمین بیٹا جاب میں تمہارا سامنا ایک الگ ہی دنیا سے ہو گا۔ جہاں ہر قسم کے لوگوں کا تمہیں سامنا کرنا ہو گا۔ میری بیٹی تب حوصلہ نا ہارنا۔ اس دنیا میں اچھے برے سب انسان موجود ہیں۔

میں اپنے ابا کا بیٹا ہوں بیٹی نہیں۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا۔ جس پر ابا بھی ہنس پڑھے۔

تین دن بعد آفس سے جوائننگ لیٹر آ گیا۔ میری پوسٹگ سٹی برانچ میں کر دی گئی۔ جو میرے گھر سے کم و بیش چار میل کے فاصلے پر تھا۔

آج آفس کا پہلا دن تھا۔ ابا نے آنے جانے کے لیے رکشے کا انتظام کر دیا تھا۔ رکشے میں دو اور کالج کی لڑکیاں بھی جاتی تھیں جو آفس کے نزدیک ہی کے کالج میں پڑھتی تھیں۔

میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ کہ وہ میرے لیے آسانی پہ آسانی کیے جا رہا ہے۔

آفس پہنچ کر میں نے اپنا تعارف کروایا۔ جوائننگ لیٹر سائن کیا۔ سب سے تعارف کے بعد مجھے مینجر کی طرف سے کسٹمر کئیر ٹیبل پہ ذمہ داریاں سنبھالنے کا کہا گیا۔ کچھ دن ساتھ ساتھ ٹریننگ سیشن بھی چلتا رہا۔

جیسا میرے ابا نے کہا تھا یہ واقعی الگ ہی دنیا تھی۔ ہر کوئی آ کے اپنی پراپرٹی سمجھ کے رعب ڈالتا۔ بہت کم ایسے لوگوں سے واسطہ پڑھتا جو مہذب تھے۔ بیس سال کے لڑکے سے لے کے ستر سال کے بوڑھے تک سبھی کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے۔ ذومعنی باتوں اور اشاروں میں مخاطب ہونے کی کوشش کرتے۔ جسے میں خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھتی۔

میرا مینجر بھی ایک دل پھینک قسم کا انسان تھا۔ جو ٹریننگ، مانیٹرنگ یا مدد کرنے کی آڑ میں میرے ٹیبل پہ آ بیٹھتا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتا۔ پسند نا پسند کے متعلق پوچھتا۔ آئے روز ڈنرز کی آفر اور گھر ڈراپ کرنے کا اصرار کرتا۔ تین دن لگاتار اس نے چائے کے وقفے کے دوران اپنی حدود پار کی اور میرے کپ سے چائے کے گھونٹ لگائے۔ تیسرے دن مجھ سے رہا نا گیا تو میں نے غصے میں کھری کھری سنا دی۔ جس پر مینجر نے مسکرا دیا۔

اور بولا، چھوٹی چھوٹی باتوں کو ذہن پہ سوار نہیں کرتے۔ کچھ دن حالات معمول پر رہے مگر اب وہ گری ہوئی حرکتوں پہ اتر آیا۔ آتے جاتے مجھ سے ٹکرا کے گزرنے کی کوشش کرتا۔ میں گھر کسی سے ذکر نہیں کر سکتی تھی کیونکہ سب گھر والے جاب چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالتے اور گھر کے حالات پھر پہلے جیسے ہو جاتے۔ میں چھپ چھپ کے رو لیتی تو دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا تھا۔ تین ماہ تک مینجر مجھے ہراساں کرتا رہا۔

ایک دن کمپیوٹر پر فائل دیکھنے کے بہانے اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ اور جھک کر میرے ساتھ لگنے کی کوشش کی۔ میرا ضبط جواب دے گیا تھا۔ میں نے زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر جڑ دیا۔ میں ڈر، غصے، گھبراہٹ سے کانپتے ہوئے آفس سے نکل آئی اور ہیڈ آفس کمپلین کر دی۔ جس پر میرا تبادلہ دوسری برانچ میں کر کے معاملے کو رفع دفع کیا گیا۔

مگر یہاں بھی وہی تعفن زدہ سوچ، ہوس بھری نظریں، ذومعنی جملے میرے تعاقب میں تھے۔ نا جانے ہمارے معاشرے کو باشعور ہونے میں کتنے برس لگیں گے۔ اب میں اس ماحول کی عادی ہو چکی ہوں۔ کوئی کیا دیکھ رہا کہاں دیکھ رہا، کیا کہہ رہا کیوں کہہ رہا، اس سب کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام ایمانداری سے کرتی ہوں۔ میرے جیسی ہزارہا لڑکیاں ناجانے کن کن مجبوریوں میں گھروں سے نکلتی ہیں۔ جنہیں یہ بے ضمیر معاشرہ کسی نہ کسی طرح ہراساں کرتا۔ مجھے شرم آتی ہے خود کو اس معاشرے کا حصہ کہتے ہوئے جہاں دو سال کی بچی سے لے کے قبر میں لیٹی عورت تک مخفوظ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).