آئین و قانون میں سقم اور مرغیوں کی آگ نما کلغی


سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں لکھا ہے کہ ”متعدد فیصلوں میں کہا جاچکا ہے کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے“۔ اِس فیصلے کے آخر میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ ”قواعد بنانے سے عوام کے منتخب نمائندوں کا اقتدار اعلیٰ مضبوط ہوگا“۔ مندرجہ بالا فیصلے کو پڑھنے اور دیگر کئی قوانین پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کے آئین و قانون میں اس کے علاوہ بھی کئی سقم موجود ہیں جن پر کبھی سوچ و بچار ہی نہیں کیا گیا۔

مثلاً سیاسی جماعتوں، طریقہ انتخابات اور منتخب نمائندوں وغیرہ کے حوالے سے آئین و قانون کی شقوں میں ایسے خلاء موجود ہیں جن سے جمہوری نظام آلودہ ہوجاتا ہے۔ آئین و قانون کے سقم دور کرنا منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے لیکن ہمارے ہاں آئین و قانون کی خامیوں کو پارلیمنٹ میں عموماً زیربحث نہیں لایا جاتا۔ اس کی وجہ اپنی کم عقلی کا کمپلیکس ہے یا آئین و قانون کے گرد بنائی گئی آگ اگلتی خاردار باڑ سے جل کر بھسم ہو جانے کا ڈر؟

معاملات کو سمجھے بغیر ان سے خوفزدہ رہنے کی بہترین مثال درج ذیل کہانی میں موجود ہے۔ ”بلیاں اور مرغیاں“ افریقہ کی ایک لوک کہانی ہے جس کا انگریزی سے اردو ترجمہ کوپن ہیگن، ڈنمارک میں مقیم اردو کے ادیب نصر ملک کی اہلیہ ہما نصر نے کیا ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ”بہت پرانے زمانے کی بات ہے، افریقہ کے ایک ملک میں بلیوں پر مرغے، مرغیاں راج کرتے تھے اور ان سب کا بادشاہ ایک مرغ تھا۔ اس کی کلغی کا رنگ آگ کی طرح سرخ تھا۔

بلیاں صبح و شام ان کے لیے کام کرتیں اور ان کے کھانے کے لیے جو کچھ اکٹھا کرتیں لاکر دے دیتیں۔ مرغوں کا بادشاہ سارا کھانا خود اپنے لیے اور مرغیوں کے لیے لے لیتا تھا۔ مرغیاں چیونٹیاں بڑے شوق سے کھاتی تھیں۔ بلیاں بڑی محنت سے چیونٹیاں چنتی اورانہیں اپنے اپنے تھیلے میں ڈال کر اسے اپنی اپنی گردن کے گرد لٹکا لیتیں اور پھر جاکر مرغیوں کے بادشاہ کو پیش کردیتیں۔ بلیوں کو یہ بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ مرغ بادشاہ سے نجات چاہتی تھیں تاکہ اپنی محنت اور مشکلوں سے اکٹھا کیا ہوا کھانا وہ خود کھا سکیں لیکن وہ ہمیشہ مرغیوں سے ڈری رہتی تھیں۔

مرغیوں نے بلیوں کو بتا رکھا تھا کہ ان کی اپنی کلغیاں اور مرغ بادشاہ کی کلغی آگ سے بنی ہوئی ہیں اس لیے وہ اپنی کلغیوں کی آگ سے اس کو جلاکر خاک کردیں گی جو اُن کی نافرمانی کرے گا۔ بلیاں ان کی باتوں پر یقین کرتی تھیں اور خوف کے مارے صبح سے شام تک مرغیوں کے لیے کھانا جمع کرتی تھیں۔ ایک رات بلیوں کے گھر میں آگ بجھ گئی۔ ایک بلی نے اپنے ایک بچے سے کہا کہ وہ جاکر مرغیوں کے گھر سے کچھ آگ لے آئے۔ بلی کا بچہ آگ لانے کے لیے مرغیوں کے گھر کے اندر گیا تو مرغ بادشاہ گہری نیند سورہا تھا اور اس کا پیٹ بلیوں کی جمع کی ہوئی چیونٹیاں کھاکھا کر پھولا ہوا تھا۔

بلی کا بچہ اسے جگانے سے ڈر رہا تھا۔ اس لیے وہ آگ لیے بغیر خالی ہاتھ واپس آگیا اور جو کچھ اس نے دیکھا تھا اپنی ماں کو بتا دیا۔ بلی نے اپنے بچے سے کہا ”تم دوبارہ جاؤ۔ اب مرغا سو رہا ہے۔ تم کچھ خشک گھاس اور تنکے اکٹھے کرکے انہیں مرغے کی کلغی کے قریب لے جانا اور جب وہ آگ پکڑ لیں تو فوراً ہی انہیں گھر لے آنا“۔ بلی کے بچے نے کچھ خشک تنکے اکٹھے کیے اور مرغ کے گھر کی طرف چل پڑا۔ مرغا ابھی تک سو رہا تھا۔

وہ ڈرتے ڈرتے ان تنکوں کو مرغ کی کلغی کے بہت قریب لے گیا لیکن تنکوں کو آگ نہیں لگی۔ اس نے تنکوں کو مرغ کی کلغی کے ساتھ رگڑا بھی لیکن پھر بھی آگ نہ لگی۔ بلی کا بچہ ایک بارپھر بغیر آگ لیے اپنی ماں کے پاس گھر لوٹ آیا۔ اس نے اپنی ماں سے کہا ”مرغے کی کلغی نے تنکوں کو آگ نہیں لگائی“۔ اب بلی ماں کچھ غصے میں تھی۔ اس نے بچے سے کہا ”میں نہیں سمجھتی کہ تم اتنے نکمے ہوگے۔ آؤ میرے ساتھ آؤ، میں تمہیں دکھاتی ہوں کہ مرغے کی کلغی سے آگ کیسے لگائی جاتی ہے“۔

اب وہ دونوں اکٹھے مرغیوں کے گھر پہنچے۔ مرغا ابھی تک گہری نیند سو رہا تھا۔ بلی ماں تنکوں کو مرغ کی کلغی کے جتنا قریب لے جاسکتی تھی لے گئی لیکن انہیں کوئی آگ نہ لگی۔ اب وہ ڈر سے کانپ رہی تھی لیکن پھر بھی ہمت کرکے وہ اپنا ایک پنجہ مرغ کی کلغی کے قریب لے گئی اور بڑی نرمی سے اسے چھونے لگی۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ کلغی نہ صرف بہت ٹھنڈی تھی بلکہ وہ بڑی بھدی بھی تھی اور صرف اس کا رنگ ہی سرخ تھا۔ جونہی بلی ماں کو محسوس ہوا کہ مرغیاں تو ان سے اپنی کلغیوں کے متعلق جھوٹ بولتی رہی ہیں وہ خوشی سے اچھلتی کودتی باہر نکل گئی اور شور مچامچا کر بلیوں کو بلانے لگی ”آؤ، آؤ میری بہنو آؤ۔

میں تمہیں ایک سچ بتاتی ہوں ”۔ وہ چلا چلا کر کہہ رہی تھی۔ سب بلیاں اس کے گرد اکٹھی ہوگئی تھیں اور وہ انہیں مرغیوں کے فریب اور دھوکا بازی کے متعلق بتا رہی تھی۔ بلیوں نے مرغ بادشاہ کی غلامی سے نجات کا اعلان کردیا۔ پہلے تو مرغیوں کا بادشاہ بہت ناراض ہوا اورغصے میں ہاتھ پاؤں مارتا رہا پھر گرج کر بلیوں سے کہنے لگا“ اگر تم نے میرے لیے کام نہ کیا تو میں تمہارے گھروں کوجلا دوں گا ”۔ بلیاں پہلے تو ہنسیں اور پھر مرغ بادشاہ کا تمسخر اڑاتے ہوئے بولیں“ تمہاری کلغی آتشیں نہیں ہے۔

وہ آگ لگا ہی نہیں سکتی۔ اس کا صرف رنگ ہی آگ کی طرح کا ہے ”۔ مرغ بادشاہ سمجھ گیا تھا کہ بلیاں اب سچ جان چکی ہیں اور انہیں معلوم ہوگیا ہے کہ ہم ان سے جھوٹ بولتے رہے ہیں۔ وہ وہاں سے بھاگ گیا۔ وہ پیچھے دیکھے بغیر مسلسل بھاگ رہا تھا۔ یہاں تک کہ بھاگتے بھاگتے وہ بلیوں سے بہت دور چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک جونہی مرغیاں بلی دیکھتی ہیں وہ اس سے دور بھاگنے لگتی ہیں۔ اب مرغیاں ہمیشہ کے لیے بلیوں سے ڈرتی اور خوف کھاتی ہیں“۔ اگر پارلیمنٹ سیاسی جماعتوں، طریقہ انتخابات اور منتخب نمائندوں کے حوالے سے بھی آئین و قانون میں موجود سقم دور کرنے کی ہمت کرلے تو اصل جمہوریت کا اقتدار اعلیٰ بلند ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).