قابل رحم ہے وہ قوم۔۔۔


”قابل رحم ہے وہ قوم“ یہ وہ تاریخی نظم ہے معروف لبنانی نژاد امریکی مصنف و شاعر خلیل جبران کی جو موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم گیلانی کو نا اہل کرنے والی سپریم کورٹ کے بینچ ممبر کے بطور اپنے ریمارکس میں لکھی۔ سپریم کورٹ کی طرف سے حکم پر گیلانی حکومت نے دو سال تک عملدرآمد نہیں کیا، یعنی آصف زرداری سمیت مشرف کے ساتھ بینظیر کی این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کیسز کھلوانے کا کام نہیں کیا۔

نتیجتا عدلیہ کی توہین کا مرتکب قرار پاکر وزارت عظمیٰ سے جیالا وزیر اعظم نا اہل قرار پایا۔ یعنی کچھ اور نہیں بلکہ فوجی آمر صدر پرویز مشرف اور بینظر بھٹو کے درمیان این آر او کو سپریم کورٹ کی جانب سے غیر قانونی قرار دینا بنیاد بنی۔ آج ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ کا خوبصورت نعرہ لگانیوالے بلاول بھٹو کو کوئی یاد دہانی کرائے، کہ اسی آمر جنرل کے ساتھ ان کی والدہ محترمہ این آر او کرکے واپس ملک آئیں تھی، اور ان کے ایک وزیر اعظم کو اسی غیر قانونی این آر او کے طفیل سزا بھی ہوئی۔

اس تاریخی نظم میں سیاست دانوں، دانشوروں، اہل علم و دانش، سب کے کارتوت مختصر مگر جامع طور بیان ہیں۔ جیسے

قابلِ رحم ہے وہ قوم

جو بظاہر خواب کی حالت میں بھی ہوس اور لالچ سے نفرت کرتی ہے

مگر عالم بیداری میں

مفاد پرستی کو اپنا شعار بنا لیتی ہے

اورقابلِ رحم ہے وہ قوم

جس کے نام نہاد سیاستدان

لومڑیوں کی طرح مکّار اور دھوکے بازہوں

اور جس کے دانشورمحض شعبدہ باز اور مداری ہوں

پی پی کی اور نون لیگ کی لیڈر شپ تب اسی فوجی آمر پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کرکے اپنے اقتدار کے لئے راہیں ہموار کرتے رہے۔ جب مشرف کی رخصتی کا وقت آیا، اسی بلاول کی پی پی پی نے گارڈ آف آنر پیش کرکے رخصت کیا۔ اور جب نون لیگ کی حکومت میں مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی، تو پی پی والے نون لیگ پرمعترض تھے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا جملہ تھا، ’مشرف کو گارڈ آف آنر دینے والے (یعنی پیپلز پارٹی والے ) سیاسی ڈرامہ کر رہے ہیں‘ ۔ نون لیگ نے مشرف کے خلاف بغاوت کا کیس تو کیا جس کا پانچ سال بعد اب فیصلہ آگیا، مگر انہیں ملک سے جانے کی اجازت بھی کسی اور نے نہیں بلکہ اسی نون لیگ نے دی۔ سو

قابلِ رحم ہے وہ قوم

جو اپنے نئے حکمران کو ڈھول بجاکرخوش آمدید کہتی ہے

اور جب وہ اقتدار سے محروم ہوں

تو ان پر آوازیں کسنے لگتی ہے

در اصل مسئلہ اس ملک کا یہ نہیں تھا کہ 2007 میں سپریم کورٹ کے ججز کو معطل کیا اور اسی چیف جج نے پلٹ کر آرمی جنرل پر مقدمہ چلانے کا آغاز کیا۔ پی پی کی پانچ سالہ حکومت کے بعد نواز شریف نے آرٹیکل 6 کے تحت اسے غداری کا مقدمہ بنایا۔ بلکہ اصل ایشو اس رونے دھونے کا تھا جو ہر سیاستدان کا وتیرہ رہا ہے۔ وہی کہ ملک کی تاریخ میں جمہوریت سے زیادہ آمریت رہی۔ مشرف کی آمریت تو 2007 میں نہیں بلکہ 1999 میں شروع ہوئی تھی۔

آئین اور عدلیہ معطل، پی سی او کے تحت من مانی تب شروع ہوئی۔ مگر آٹھ سالوں کے تمام کیے دھرے پر خاموشی اور جانے سے ایک سال قبل کے کام پر ”سزائے موت؟ “ یہ کیس کرنے والوں کی ترجیح ظاہر کرتی ہے، کہ مستقبل کے لئے سول سوپر میسی یعنی آئندہ ملک پر شب خون مارکر آمریت کے امکان کو روکنا چاہتے تھے؟ اور عدلیہ کی آزادی چاہتے تھے؟ یا پہلے پی سی او کے تحت جج بن کر بعد میں پی سی او کے ذریعے ’معطل ہونے والا جج یعنی افتخار چوہدری‘ اور اقتدار کی کرسی سے ہٹائے جانے والا ’سیاست دان، یعنی نواز شریف‘ اس آمر سے اپنا بدلہ لینا چاہتے تھے عدلیہ کے ذریعے؟ اب یہ اور ایسے کئی سوالات سوشل میڈیا پر اٹھتا نظر آرہے ہیں۔

اور نظم میں مجموعی طور پر پورے قوم کی حالت بیان ہے تو اس حقیقت کے ساتھ

قابلِ رحم ہے وہ قوم

جو جنازوں کے جلوس کے سواکہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی

اور ماضی کی یادوں کے سوا اس کے پاس فخرکرنے کاکوئی سامان نہیں ہوتا

وہ اس وقت تک صورتِ حال کے خلاف احتجاج نہیں کرتی

جب تک اس کی گردنین تلوارکے نیچے نہیں آجاتی

قابلِ رحم ہے وہ قوم

جو ٹکڑوں میں بٹ چکی ہو

اور جس کا ہرطبقہ

اپنے آپ کو پوری قوم سمجھتا ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).