ہمارا سکون کیسے چھن گیا؟


آج کا سب سے بڑا المیہ ہماری اندرونی بے سکونی ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ ہمارے اردگرد اتنی بے سکونی کیوں ہے؟

ہر بندہ اتنا اوازار ’اکتایا ہوا اور پریشان کیوں ہے؟

ٹھیک ہے کہ مہنگائی ہے ’ضرورتیں ہیں‘ اخراجات ہیں ’مسلئے مسائل ہیں‘ پریشانیاں ہیں ’تکلیفیں ہیں اور دکھ ہیں۔ لیکن مایوسیوں اور اندرونی بے چینی کی وجہ کیا ہے؟

میرے مطابق ہماری بے چینی ’بے سکونی کی سب سے بڑی اور اہم وجہ ہم خود ہیں۔ کیونکہ ہم نے اپنی خواہشات کو بڑھا لیا ہے۔ ہم مطمئن نہیں ہوتے۔ چاہت بڑھتی جاتی ہے۔ ایک چیز حاصل ہوگئی تو دوسری کی چاہت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ہم نے ہنسنا بولنا ’ملنا جلنا‘ خوش ہونا چھوڑ دیا ہے۔ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونا چھوڑ دیا ہے۔ اب کسی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ مل بیٹھ کر باتیں کر سکیں اپنی کہانیاں بتا سکیں۔ ہنس سکیں بول سکیں۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ہم ایک دوسرے سے انجان ہو گئے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشی اور غم سے ناآشنا ہیں اسی وجہ سے دلوں میں فرق آگیا ہے ’دوریاں آگیئں ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے سکول سے آتے ہی ساری کہانی من و عن امی کو سنایا کرتے تھے اور جب تک ایک ایک بات بتا نہ دیتے سکون نہ ملتا اس زمانے میں بہن بھائی بھی زیادہ ہوتے تھے اور عمروں میں فرق بھی کم ’لیکن کمال کی بات تھی کہ آپس میں پیار محبت بہت زیادہ تھا۔ امی سب کو برابر کا وقت دیتیں سب کی سنتی تھیں کبھی کسی کو شکایت نہیں ہوئی تھی کہ اس کی بات نہیں سنی گئی۔

ابا گھر آتے تو سارے دن کی روداد ان کے کانوں سے گزاری جاتی۔ امی بھی اپنے سارے دن کی کارروائی کا بتاتیں۔ عجیب سا پیار بھرا ماحول ہوتا تھا ہر طرف سکون ’خوشی‘ محبت کا راج ہوتا تھا۔ اب کئی کئی دن گزر جاتے ہیں ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے ہوئے۔ اب مل بیٹھنے کا کسی کے پاس وقت ہی نہیں۔

اب گھر بڑے ہوگئے ہیں اور رہنے والوں کے دل چھوٹے ’پیار محبت کی جگہ حسد اور نفرت نے لے لی ہے۔ اب برداشت کا مادہ کم ہو گیا ہے‘ انا ’اور‘ میں ’نے گھر کا سکون برباد کر دیا ہے۔ اپنائیت ختم ہو گئی ہے۔

اس سب کے پیچھے سب سے اہم اور بڑی وجہ سوشل میڈیا ’انٹرنیٹ اور موبائل کا بے جا استعمال ہے۔ ہر بندہ ہر وقت موبائل پر مصروف رہتا ہے ویسے کہنے کو وقت نہیں ہے لیکن موبائل پکڑ کر گھنٹوں وقت ضائع کیا جا سکتا ہے۔

دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہم میں حسد بہت زیادہ ہو گیاہے۔ کسی کی کامیابی پر خوش ہونے کی بجائے تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اس نے کامیابی آخر حاصل کر کیسے لی۔

تیسری اہم وجہ ہمارا ناشکرا پن ہے۔ ہم نے اللّہ کا شکر ادا کرنا چھوڑ دیا ہے ان تمام نعمتوں کا جو اس نے بن مانگے عطا کی ہوئی ہیں۔ ہم خود سے اوپر کے لوگوں کو دیکھتے ہیں اور حسد کا شکار ہو جاتے ہیں جو نعمتیں اللہ نے ہمیں دی ہیں ان کو فراموش کر کے خود کو جو حاصل نہیں اس کی چاہ میں مبتلا کر کے پریشان کرتے ہیں ’بے سکون کرتے ہیں۔ اللہ کی ذات پر بھروسا نہیں رکھتے اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ جو اس نے عطا کیا ہے جو ہمیں نوازا ہے اور جو ہمارے لئے سوچا ہے وہی سب سے بہتر ہے۔ لیکن ہماری سوچ اس بات پر آکر رک جاتی ہے کہ جو نہیں ملا بس وہی ملنا چاہیے تھا۔ اپنی خوشیاں بس اس اک چیز سے منسلک کر لیتے ہیں اور باقی حاصل نعمتوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔

حالانکہ ہونا تو ایسا چاہیے کہ صبح کو اٹھ کر سب سے پہلا کام شکر ہونا چاہیے اس ذات کا جس نے ہمیں صحت و تندرستی عطا کی ’نئی زندگی دی اور اپنے پیاروں کا ساتھ دیا۔ ایک لمحے کو اگر سوچیں کہ اگر ہماری بینائی نہ ہوتی‘ سماعت سے محروم ہوتے یا کوئی عضو کام نہ کرتا تو ہم کیا کر لیتے۔ اس رب کا جتنا شکر ادا کیا جائے اتنا کم ہے۔ لیکن ہم ناشکرے لوگ ہر وقت رونے دھونے کی عادت سے مجبور ہیں اور اسی وجہ سے بے سکون ہیں۔ اور اپنے اللّہ سے دور ہیں۔ تبھی ناکام ہیں۔ لیکن بات کو سبجھتے ہوئے بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).