قندیل بلوچ: ویمن امپاورمنٹ کا استعارہ


\"amara-shah\"پاکستانی معاشرہ بھی عجیب تضادات سے بھرپور معاشرہ ہے۔ یہاں طوائف کی زندگی پہ کتاب لکھنے والی مصنفہ کو ہیروئن قرار دے دیا جاتا ہے لیکن خود طوائف اسی حقارت بھری نظر کی حقدار ٹھہرتی ہے۔

سول سوسائٹی جو غریب اور نادار عورتوں کے لئے آواز اٹھاتی ہے وہ ملک کا روشن پہلو ہوتا ہے لیکن جن عورتوں کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے وہ انہی تاریکیوں کی علامت ٹھہرتی ہیں۔ پنجاب کے کھیتوں میں دن بھر کپاس چننے اور گندم کاشت کرنے والی عورت ویمن ایمپاورمنٹ نہیں لیکن ان زمینوں کی مالکن جو ان کھیتوں کو کاشت کرواتی ہے وہ عورتوں کے لئے مثال ٹھہرتی ہے۔

حوّا کی بیٹی جب ہوس کا نشانہ بنتی ہے اور اگر اسکی ظلم کی داستان میڈیا تک پہنچ جائے اور بین الاقوامی شہرت کی حامل قرار پائے تو اس کے لئے اعتزاز احسن کا وکالت نامہ جیب سے پھڑک کر باہر آ جاتا ہے۔ لیکن اس ملک میں ہر آئے دن سینکڑوں کو تعداد میں عورتیں ہوس کا شکار ہوتی ہیں لیکن انھیں کوئی اعتزاز احسن میسر ہے اور نہ ہی فاروق نائیک۔

کہیں کوئی قندیل جسم کے تیشے سے زندگی کا پہاڑ کھودے تو وہ فاسقہ اور فاجرہ قرار دے دی جاتی ہے لیکن کسی صاحبِ ثروت کی بیٹی بے سٌر ہونے کے باوجود سٌر اور تال چھیڑے تو وہی مومنہ ٹھہرے اور مستحسن بھی کہلائے۔ ایک کا گانا محض شوق اور تفریح، غمِ روزگار نہ فکرِ حیات اور دوسری کی زندگی کا مقصد بوڑھے والدین کی خدمت اور جوان بےکار بھاٸیوں کی فرمائشیں پوری کرنا۔ بے سٌری آواز اور تفریح passion اور جزبہ کہلائے۔بڑے بڑے نقاد تعریف میں زمین و آسمان کے قلاوے ملائیں اور اسے پاکستان میں موسیقی، فن اور ادب کے فروغ کی علامت ٹھہرائیں، بڑے گھرانوں سے بچیوں کا آگے آنا نہ صرف ویمن ایمپاورمینٹ کہلائےبلکہ قائد کے وژن کی بہترین عکاسی بھی کرے۔

\"Qandeel4\"

ہمارا معاشرہ دن بدن فنونِ لطیفہ کے فروغ میں پیش رفت اختیار کرتا جا رہا ہےلیکِن اگر ملتان کے کسی چک سے مفلس اور نادار قندیل جگمگائے جس کے حسن پر اقبال کے شاہین فریفتہ ہو جائیں اور پہاڑوں کی چٹانوں کو چھوڑ کرYouTube کے سامنے متمکن ہو جائیں۔ جو اپنی روح پر سینکڑوں گھائل ہونے کے باوجود مہزب، پڑھے لکھے روشن خیالوں کی ہوس اور تسکین کا باعث بنے۔ جسکی ویڈیوز کے پسِ منظر میں ٹی بی زدہ ماں کی کھانسی کی آواز اور پیرانہ سال مفلس اور نادار باپ کی آنکھوں میں نا آسودہ خواہشات ٹمٹماتی ہوں، نوجوانانِ امتِ مسلمہ جس کے حسن کو دیکھ کر اپنی روح کو تسکین بخشیں اور پھر ٹویٹر اور فیس بک پر اٌسکو فاحشہ کے القابات سے نواز کر اپنے مذہبی فریضہ سے بھی عہدہ بر آ ہوں تو وہ گناہگار ٹھہرے۔

بات مذہب کی چل ہی نکلی ہے تو صاحبان و مالکان و ٹھیکیدارانِ مذہب پیچھے کیوں رہیں؟ ملتان ہی کا خواہشاتِ نفسی میں قوی، لباس میں اجلا اور زبان پہ قالَ اللہٌ وَ قالَ رسول کی گردان لئے حسن کی ضیا باریوں کو مذہب، الہامات اور فتاواجات کی روشنی میں سمجھانے نمودار ہوئے۔ قندیل کے روشن چہرے کو چاند سے روشن تر کہا اور خود اس کے میزبان ٹھہرے۔

حوا کی بیٹی کو مجرا کروانے والا معاشرہ، اشتہاری انڈسٹری کو ایک جزوِ لایٌنفک سمجھنے والا پیشہ ور اور سنسنی اور ہیجان پھیلانے والا میڈیا نے قندیل کے حسن کو اپنی سکرینوں کی زینت بنا لیا اور نتیجتاً قندیل راندہِ درگاہ ٹھری اور بات اسکے قتل تک جا پہنچی۔ بس مفلوک الحال والدین اور نشئی بھائی، بعد مرنے کے \”ترے\” گھر سے یہ ساماں نکلا۔

حوّا کی ایک بیٹی ایک مفلِس گھرانے سے اٹھ کر تمام معاشرتی اور مذہبی روایات کو توڑ کر اپنے کنبے کا سہارا بنتی ہے اور اِسی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پہ ایک نیا موضوع زیرِ بحث آتا ہے کہ قندیل جیسی لڑکیاں ہمارے معاشرے پہ کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ یہ نوجوانانِ ملت کے ایمان پر تجلیِ برق بن کر ٹوٹتی ہیں۔ سِول سوسائٹی کا خواتین کی آزادی اور حقوق کے لئے لڑنے والا ہمہ وقت چاق و چوبند دستہ بھی قندیل کی دفاع سے معزوری کا اظہار کرتا ہے۔

\"qandeel-1\"

کوک سٹوڈیو میں ڈھول کی تھاپ پر اپنی بے سٌری آواز کا جادو جگانے والی معتبر گھرانے کی مومنہ بھی ارشاد فرماتی ہیں کہ قندیل جیسی لڑکیاں ویمن ایمپاورمینٹ کی علامت نہیں بلکہ یہ خواتین کی آزادی کے لئے آج تک کی جانے والی جٌہدِ مسلسل پہ کاری ضرب ہیں۔

بات تو ٹھیک ہے کہ اگر امیر گھرانے کی لڑکی، بڑے باپ کی بیٹی محض تفریح اور شوق کے لئے کوک سٹوڈیو میں قندیل سے قدرے مختلف لباس پہن کر مغنیہ کے روپ میں پہ تماشا لگائے تو وہ خواتین کی آزادی، فن کی ترویج، ادب کے فروغ، معاشری کی روشن خیالی اور نوجوان نسل کی درست سمتگی کی علامت ٹھہرے۔ مخلوط بینڈ کا حصہ بن کر وہ ادب میں ترقی پسند تحریک کی کامیابی کی دلیل، گھٹن زدہ معاشرے میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا، فنونِ لطیفہ کے بجھتے ہوئے چراغوں میں روشنی کی امید اور آنے والی نسل کے لئے روشن قندیل ٹھہرے لیکن اسی میڈیا پر مذہبی اور فلسفیانہ بحثوں میں اصل قندیل گندگی کا استعارہ ٹھہرے۔

یہ ہے اس معاشرے کا تضاد ہے جو نہ صرف ہمارے گلی محلوں میں نظر آتا ہے بلکہ میڈیا پر بھی نمایاں ہے۔ مومنہ مستحسن کو قندیل پر بیان داغنے سے پہلے اسکا سماجی پسِ منظر بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے تھا۔ اس نے کسی بڑے گھرانے میں آنکھ نہیں کھولی تھی اور نہ ہی کسی بڑے سکول سے تعلیم حاصل کی اور نہ ہی اسے پوش علاقوں کی نائٹ پارٹیز میں صالحین کی محفل میسر آئی کہ وہ اپنی معاشی اور سماجی محرومیوں اور اپنے کنبے کی نگہداشت کے لئے کی جانے والی جدوجہد کے لئے سندِ جواز اور صاحبانِ جبہ و دستار سے اجازت نامے کی خلعتِ فاخرہ لاتی۔ مومنہ صاحبہ کو کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی کہ قندیل نے جو کیا یہ کسی مکتب کی کرامت نہیں تھی بلکہ صرف اور صرف مجبوریء زندگی تھی۔ حالات کا جبر اور گھر کے فاقوں اور معاشرے کی بے حسی کا تن تنہا مقابلہ کرنے والی قندیل ویمن ایمپاورمنٹ کا سب سے بڑا استعارا ہے جس پر مہرِ تصدیق اس کے مضمحل اور ضعیف باپ نے یہ کہہ کر ثبت کی

\”میری قندیل کے قاتل میرے سگے بیٹے کو سرِعام گولی مار دی جائے\”

جو قندیل مومنہ صاحبہ کی نظر میں معتوب ٹھہریں وہی قندیل اپنے غیرت مند، ان پڑھ، مفلوک الحال باپ کی نظر میں فائز و محترم ہے۔ قندیل کے تمام تر \’قبیح\’ گناہوں کے باوجود نہ تو اس کے باپ کا سر شرم سے جھکا اور نہ ہی آنکھیں نیچی ہوئیں بلکہ اس نے سینہ تان کر اپنی بیٹی پر فخر کرتے ہوئے معاشرے کو بتایا کہ میری قندیل نے بہت کم عمری میں اپنے کنبے کے لئے بہت بڑی قربانیاں دیں۔ میڈیا، معاشرہ، سِول سوساٹی، مذہبی ٹھیکیدار اس کے لئے کچھ بھی کہیں وہ میرا فخر ہے۔ قندیل کی والدہ مومنہ صاحبہ کی طرح چبا چبا کر انگریزی اور اردو تو نہیں بولتی لیکن اس نے اپنی برستی آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں سے دنیا کو بتا دیا کہ میری بیٹی اپنے ماں باپ اور اپنے گھرانے کی خوشحالی کے لئے سر پہ کفن باندھ کر نکلی تھی اور وہ میرے لئے سرمایہِ افتخار ہے۔ میں یہ نہیں جانتی کہ تمھارے مذہب اور اخلاقیات کی کتابوں میں کیا لکھا ہے اور تمھارے سماج کا معیار کیاہے؟ میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ میری بیٹی نے اپنے کنبے کے لئے وہ جنگ کی جس میں اس کے جسم پر تو کوئی زخم نظر نہ آیا لیکن اس کی روح شکستوں سے چور ہو گئی۔ مجھے نہ تو اس معاشرے سے اپنی بیٹی کے لئے تمغہ چاہیئے اور نہ ہی صاحبانِ منبر و دستار سے اسکی بخشش کی سند۔ میرا رب جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہےمیری بیٹی کے اعمال کا بہتر فیصلہ کرے گا۔ میں برستی آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں سے اس معاشرے کے صاحبانِ بست و کشاد سے صرف ایک سوال پوچھتی ہوں کہ آخر کب تک اس معاشرے کی قندیلیں اپنے خون سے اپنے گھروں کو روشن کرتی رہیں گی اور روشنی دیتے دیتے مومناؤوں، غیرتمندوں اور مذہبی ٹھیکیداروں کی نظر میں
تاریکی کا استعارا ٹھہریں گی؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments