ہم جا کہاں رہے ہیں؟


سنا ہے کہ اِسی برس امریکا بشمول ناٹو کے فوجی افغانستان سے جا نہیں بلکہ بھاگ رہے۔ (ممکن ہے اگلے برس۔ لیکن وہ بھاگنے کی تیاریوں میں ضرور ہیں! )

اب ذرا امریکیوں کی سوچ کو سمجھیں تو وہ پاکستان کے لیے بالکل ٹھیک ویسے ہی خیالات رکھتے ہیں جو ہم امریکہ کے لیے۔ یعنی بہت برے۔ سو یہ جو صاحب بہادر امریکا تھوڑا بہت ہلکا ہاتھ رکھ رہا ہے پاکستان پر وہ بھی اس وقت تک ممکن ہے جب تک ان کے فوجی پڑوس میں ہیں۔ جیسے ہی اس کی فوج یہاں سے نکلے گی، پھر ٹرمپ کا حلیہ دیکھئیے گا پاکستان کے لیے! وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے جو ہم پر کڑا وقت ٹھونسے گا اس کا شاید ہی کوئی اندازہ کر سکے!

دوسری طرف روس نے افغانستان حکومت اور طالبان کے ساتھ جدا جدا اور اکٹھے بیٹھکیں بھی کی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں کیا کیا طے ہُوا ہے، یہ تو وہ اور خدا جانیں!

بہت گہری نظر سے دیکھیں تو طالبان اور افغانستان حکومت پاکستان کے لیے وہ جذبات رکھتے ہیں جو ذلیل و خوار کی ہوئی مطلقہ بیٹی کے والدین اس کے سابقہ شوہر کے لیے رکھتے ہیں! یعنی دونوں پاکستان کو صاف صاف دھمکیاں دے رہے ہیں!

ادھر سے اچانک ایک بہت بڑا بم داعش نے پھوڑا ہے کہ ہم جلد پاکستان سے ایٹمی ہتھیار خریدنے والے ہیں۔ (میں سمجھ رہا ہوں کہ ایسا ممکن نہیں، لیکن انہوں نے پوری دنیا کو ایک دھمکی ضرور دے رکھی ہے )

اچھا، اب ذرا ہمسایہ ملک کی صورتحال دیکھیں تو وہاں مودی جیسا کٹر پھر سے مسند پر براجماں ہوگیا ہے جس کے الیکشن نعروں میں ایک یہ بھی تھا کہ آپ کے دشمنوں کو چنے چبائے جائیں گے۔

چائنا پالیسی کو دیکھا جائے تو اس کا نہ تو عیسیٰ پیر ہے نہ ہی موسیٰ، بلکہ صرف اور صرف پیسا ہی پیر ہے۔ ہمارے لیے چائنا اب وہ نہیں رہا جس کو ہم ”سی پیک“ والے لولی پاپ سے دیکھتے تھے۔

ادھر ملک کے اندر کی صورتحال یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے تین صوبے کسی نہ کسی ناتے اپنا منہ پھُلائے بیٹھے ہیں۔ ایک دبی زباں میں احتجاج کر رہا تو باقی دو صوبے علیٰ الاعلان داڑھی دکھا کر کہ رہے ”میاں اب وہ دور نہیں رہا! “

سیاسی عدم استحکام کی صورتحال یہ ہے کہ ملک کا وزیرِ اعظم صاحب قوم سے خطاب کرتے وہ ہی کنٹینر پر کھڑے ڈائلاگ مار رہا ہے جو کسی زمانے میں سلطان راہی مرحوم پنجابی فلموں میں گنڈاسا پکڑے چیخ کر کہتا تھا ”اوئے، میں نئی چھڈاں گا! “

اب ہمارے جیسے کمزور اور ناتواں لوگ جو چھینک پر پھدک کر پریشان ہوتے ہیں وہ سوچ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟

جب ملک کے تین اطراف بیرونی خطرہ ہو، تب سیانے لوگ کیا کریں گے وہ ملک میں استحکام قائم رکھیں گے۔ لوگوں کو توڑنے کے بجائے جوڑنے میں جٹ جائیں گے۔ پورے ملک میں یکجوئی قائم کریں گے۔ یہ جو نیب شیب کر رہی، یہ جو کرپشن کرپشن والی جوکر مارکہ گیم کھیلی جا رہی فلحال اسے پس پشت رکھ کر ملک میں تمام اکائیوں کو اکٹھا کرنے کی حکمت عملی بنا ئیں گے! تاکہ آنے والے والے کڑے وقت میں اندر سے لاوہ نہ پھٹے!

لیکن یہ ”خیالی سیانہ گردی“ تو نظر نہیں آ رہی۔ تو پھر آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟

کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ کوئی ہے جو ہم اپاہج لوگوں کو سمجھاوے! چلتے چلتے بھلا ہم اپاہج لوگ وزیر اعظم صاحب کو یہ عرض نہیں کر سکتے کہ عالی جناب، ظلِ الہی، خدا کے لیے اس وقت ملک میں ملی یکجہتی کرانے کی کوشش کیجئیے۔ بہت ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام پر اعتماد کریں۔ انہیں جینے دیں، یہ آزادی بار بار نہیں ملتی! خدا کے لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).