بسم اللہ کو انصاف دلائیے


یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہے نہ ہی آدھے سچ اور آدھے جھوٹ پر مبنی ہے۔ بسم اللہ جو بلوچستان کے شہر دکی سے تعلق رکھتے ہیں کے خاندان پر ظلم ہی نہیں قیامت صغری آن پڑی ہے۔ ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا اور دو افراد کو شدید زخمی کیا گیا۔ ایک دن اچانک کال آئی اور سامنے سے انتہائی افسردہ آواز میں کوئی شخص بولا ہیلو! ہیلو ہائے کے بعد نام پوچھا تو کہنے لگا بسم اللہ بات کر رہا ہوں۔

جی بسم اللہ کیسے ہیں آپ؟ میرے پوچھنے پر بسم اللہ نے ہمت کرکے جواب تو دیا کہ بالکل ٹھیک ہوں مگر حقیقت کچھ مختلف تھی کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں کہنے لگا کہ بھائی ہم پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔ خیر کیا ہوا؟ میں نے بسم اللہ سے پوچھا۔ کہنے لگا بھائی ہمارا سارا گھر اجڑ گیا ہے۔ میرے دو بھائیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔ ایک بھانجے کو بھی قتل کیا گیا ہے۔ دو کزن تھے انہیں بھی قتل کیا گیا ہے۔ اب میں کبھی اسلام آباد کی سڑکوں پر انصاف کے لئے بینر اٹھائے پھر رہا ہوں تو کبھی کوئٹہ میں احتجاج کرکے اپنے خلاف ہونے والے ظلم پر انصاف مانگ رہا ہوں۔ میں نے گزارش کی بھائی یہ کب اور کیسے ہوا؟ بسم اللہ نے جو واقعہ سنایا وہ اسی کی زبانی یہاں لکھ رہا ہوں۔

بھائی 20 نومبر 2019 ء کو سیدال خان، نعمت اللہ، حبیب اللہ، نصر الدین، ذکریا، محمد انور، عبد الرشید لورالائی سے دکی آرہے تھے کہ راستے میں ”انزرگٹ“ کے مقام پر جب پہنچے تو کچھ مسلح افراد نے ان کو گاڑی سے اتار کر شناختی کارڈ چیک کیے۔ وہ تمام کے تمام آرمی وردی میں تھے۔ اس کے بعد انہوں نے نعمت اللہ اور حبیب اللہ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ان کو اپنی گاڑی میں ڈالا اور حاجی سیدال، عبد الرشید، محمد انور، ذکریا، نصر الدین پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔

حاجی سیدال، نصر الدین موقع پر ہی شہید ہوئے۔ محمد انور، ذکریا اور عبد الرشید شدید زخمی ہوگئے اور ذکریا اگلے روز ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ جبکہ حبیب اللہ اور نعمت اللہ کو لے کر وہ ہرنائی کی طرف روانہ ہوئے جن کو وہ ساری رات تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ اور پھر حبیب اللہ اور نعمت اللہ کو ذبح کر کے انہوں نے لاشیں ہرنائی میں تورخان کی پہاڑی سے نیچے پھینک دیں۔

بھائی اس واقعہ کو ایک مہینہ ہوگیا ہے لیکن حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ تمام ملزمان آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ ہم چیف جسٹس، آئی جی ایف سی، آئی جی پولیس بلوچستان اور تمام سیکیورٹی اداروں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملزمان کو گرفتار کریں اور قانون کی بالادستی قائم کریں۔ اور سیاسی لیڈروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس واقعے کو پارلیمنٹ کی آواز بنائیں تاکہ اس واقعے کا پرامن حل نکل سکے۔ ہم پاکستان کی انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ لواحقین کو انصاف دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

بسم اللہ کا کہنا ہے ہم نے آرمی اور ایف سے تمام تر معلومات حاصل کی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے آرمی کی وردی استعمال کی ہے۔ وہ آرمی کے لوگ ہرگز بھی نہیں تھے۔ آرمی کی وردیاں استعمال کرکے وہ اپنی ذاتی دشمنیاں بھی پوری کر رہے ہیں اور آرمی کو بھی بدنام کر رہے ہیں۔ سیکورٹی اداروں نے بھی مکمل یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم مجرموں کو پکڑنے میں ہر ممکنہ کوشش کریں گے۔ اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کریں گے۔

بسم اللہ جو اپنے پیاروں کے غم میں مبتلا ہے آج کل اپنی تعلیم سے زیادہ اپنے خاندان کو انصاف دلانے کے لئے کوشاں ہے۔ ظلم و بربریت کو روکنے کے لئے اور بسم اللہ کے خاندان کو انصاف دلانے کے لئے سیکورٹی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور حکومت بلوچستان ایسے سانحات پر فوری ایکشن لے کر مجرموں کو گرفتار کرے تاکہ بسم اللہ کے خاندان کو انصاف مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments