”کتابیں ہیں چمن اپنا“


ان دنوں انڈین حکومت کی طرف سے تو اچھی خبر ملنے کی امید بہت کم ہے، البتہ ایک بھارتی شہری کی طرف سے حیران کن خبر سننے کو ملی ہے۔ جنوبی ہندوستان کے صوبے تامل ناڈو کے ایک شہر کے ایک باربر نے اپنے سیلون میں گاہکوں کے لیے ٹی۔ وی رکھنے کی بجائے ایک چھوٹی سی لائبریری قائم کر دی ہے۔ جو شہری کتاب پڑھے گا اسے تیس فیصد رعایت دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ تاہم خبر میں یہ ابہام ہے کہ یہ رعایت پوری کتاب پڑھنے پر دی جائے گی یا چند صفحات کیونکہ وہاں بیٹھے بیٹھے تو چند صفحات ہی پڑھے جا سکتے ہیں۔

بہرحال جو بھی اس بھارتی باربر نے کتاب سے محبت پیدا کرنے کا انوکھا اور منفرد انداز اپنایا ہے جو قابلِ تعریف ہے۔ اس طرح کی خوش آئند خبریں اور ملکوں سے بھی ملتی رہتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جرمنی سے خبر آئی کہ کتاب سے انس پیدا کرنے کے لیے ایک دیوانے نے ایک بس اسٹاپ پر ایک چھوٹی سی لائبریری قائم کر دی ہے جو چوبیس گھنٹے بغیر کسی لائبریرین کے کھلی رہتی ہے۔ لوگ الماری میں لگی کتب میں سے اپنی پسند کی کتاب وہیں بیٹھ کرپڑھ سکتے ہیں، ساتھ گھر اور دفتر بھی لے جا سکتے ہیں۔ لوگ پڑھنے کے بعد نہ صرف کتابیں واپس رکھ جاتے ہیں بلکہ کچھ لوگ اپنی طرف سے کتابیں بطور تحفہ وہاں رکھ بھی جاتے ہیں۔

مغرب میں ویسے بھی کتب بینی ہماری نسبت بہت زیادہ ہے۔ امریکہ سے ”ہم سب“ کی مستقل لکھاری محترمہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی صاحبہ نے اپنے ایک کالم میں چند دن پہلے بتایا کہ امریکہ کے ایک بتیس لاکھ آبادی والے شہرکی ایک لائبریری میں چالیس لاکھ کتب موجود ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے افسوس کا اظہار بھی کیا کہ اردو کتب کا حصہ وہاں آٹے میں نمک سے بھی کم تھا۔ وجہ اس کی یہ کہ اردو کتب پڑھنے والا کوئی آتا ہی نہیں اور وہاں کتب طلب کے مطابق رکھی جاتی ہیں۔

ہمارے ہاں تو کتاب پڑھنے کے رجحان میں نمایاں کمی ہو چکی ہے۔ اس کو زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ ممتاز قانون دان جناب ایس ایم ظفر کی بیٹی نے ایک بار بتایا کہ ہمارے والد ہمیں کتابوں کی دکان پر لے جا کر آزاد کر دیتے تھے کہ اپنی اپنی پسند کی کتب کا انتخاب کر لو۔ اس کے بقول اس طریقے سے ہمارے اندر کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔ سرکاری اسکولز میں اچھی لائبریریاں موجود ہیں، مگر وہاں جو اساتذہ بطور لائبریرین تعینات کیے جاتے ہیں ان کی پوری کوشش ہوتی کہ کوئی طالب علم کتاب کے قریب نہ آ سکے۔

اساتذہ کو یہ سہولت آسانی سے مہیا ہوتی ہے لیکن وہ خود ہی قریب نہیں آتے۔ ان لائبریروں میں طلبہ کی دلچسپی کے لیے بہت سی کتب ہوتی ہیں، اگر ان کو ان کی طرف راغب کیا جائے تو ان میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو سکتا ہے۔ آج کے بہت سے مشہور لکھاری محلوں میں قائم چھوٹی چھوٹی لائبریروں میں اپنے بڑوں سے چوری چوری کتب پڑھ کر بڑے لکھاری بن گئے۔ آج کل یہ لائبریریاں ختم ہو گئی ہیں۔ ہوں بھی تو بچوں کے پاس پڑھنے کا وقت ہے نہ شوق۔

ان کو اچھے گریڈز کے ایسے چکر میں ڈال دیا گیا ہے کہ ان کی مت تو ان کے نصاب کی کتب نے مار دی ہے، انہوں نے اس کے علاوہ کتب کیا پڑھنی ہیں۔ کتابیں سستی کرنے سے بھی کتب بینی کا شوق پیدا کیا جا سکتا ہے۔ لوگ مہنگی کتابیں پڑھیں یا گھر کی دال روٹی کا انتظام کریں۔ جن کے پاس وسائل ہیں ان کو شوق نہیں، جن کو شوق ہے ان کے پاس وسائل نہیں۔

ان سب باتوں کے باوجود ہمارے ہاں کتابیں چھپ بھی رہی ہیں اور بِک بھی رہی ہیں۔ ابھی معاشرہ دیوانوں سے خالی نہیں ہوا۔ کتب کی جو نمائش ہوتی اس میں کافی تعداد میں کتابیں خریدی جاتی ہیں۔ بہت عرصہ پہلے ہمارے چھوٹے سے شہر میں بھی کتابوں کا ایک دیوانہ رہتا تھا۔ جناب عبد المجید قریشی یہاں کے پوسٹ ماسٹر تھے، کتابیں ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھیں۔ کتابیں جمع بھی کرتے، ان کو نفاست سے رکھتے اور پڑھتے بھی تھے۔ پوری دنیا سے جہاں سے اچھی کتاب ملتی ضرور منگواتے۔

جس دن ڈاک میں منگوائی گئی کتب کے آنے کا امکان ہوتا تو بے چینی سے ٹرین کا انتظار کرتے جس پر ڈاک نے آنا ہوتا۔ ایک دن بارش ہو گئی اور اسٹیشن سے ڈاک لانے والا ہرکارہ لیٹ ہو گیا تو خود جا کر ڈاک کا تھیلہ وصول کیا کہ اس دن منگوائی گئی کچھ کتب کے آنے کا امکان تھا۔ ”کتابیں ہیں چمن اپنا“ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی جس کو آپ ہندوستان اور پاکستان کی کتب کا ایک انسائکلوپیڈیا بھی کہہ سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر پاکستان کے ایک موچی کے بارے میں خبر بھی چلتی رہی ہے کہ وہ کئی کتابوں کا مصنف بھی ہے اور جہاں وہ جوتوں کی مرمت کرتا ہے وہیں گاہکوں کو اپنی کتب پڑھنے کی طرف راغب بھی کرتا ہے۔ اس لیے زیادہ مایوس ہونے ضرورت نہیں، آپ اگر میری طرح کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو دیر نہ کریں بسم اللہ کی جئیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments