جنید حفیظ کاش تم پاکستان نا آتے


اگر آپ کے پاس بہترین ڈگریاں یاپیسہ ہے۔ تو کوشش کریں اس ملک سے نکل جائیں۔ بہتر اور آزاد زندگی جئیں۔ یہ الفاظ کہنے سے پہلے شاید سوچتے ہوئے بھی میں ایک اذیت میں مبتلا ہوں کہ میں کیسے اس سرزمیں کو چھوڑنے کا سوچ سکتا ہوں۔ جس سے میرا خمیر اٹھا ہے۔ جس نے مجھے سب کچھ دیا۔ مگر کیا کروں اسی دھرتی نے یہ سوچ بھی دی کہ سچ کو سچ کہوں۔ جھوٹ کو جھوٹ کہوں۔ کہیں ظلم دیکھو ں تو چیخوں چلاوں کہ یہ غلط ہے۔ سچ کچھ اور ہے۔ جو تم سن نہیں سکتے۔ جو تم برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔

میں آپ کو بھی یہی کہوں گا کہ اگر سچ بولنے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا کیڑا آپ کے ذہن میں ہے تو کوشش کریں کہ وہ مر جائے۔ ورنہ کسی دن یہ گلی کوچوں میں پھرتے کیڑے آپ پر حملہ آور ہو جائیں گے۔

آپ کتنے ہی پڑھے لکھے کیوں نا ہوں آپ فل برائٹ سکولر شپ کیوں نا حاصل کر چکے ہوں۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیز سے بہترین ڈگریاں لے کر آئیں ہوں۔ آپ لوگوں کی سوچ بیدار کریں گے۔ انہیں زندگی جینے کا ڈھنگ سکھائیں گے۔ تو عنقریب آپ پر توہین کے فتوے لگ جائیں گے۔ آپ کے وکیل مار دیے جائیں گے۔ عدالتیں بے بس ہوں گی اور آپ کسی پھندے پر جھولتے نظر آئیں گے۔

جنید حفیظ بھی اپنی بہتر زندگی کو چھوڑ کر اس ملک میں آئے تاکہ اس سوچ کا مقابلہ کر سکیں۔ طلباء میں ایک سوچ بیدار کر سکیں۔ مگر جن کے آگے ریاست بے بس ہو اس کے سامنے فرد واحد کہاں ٹھہر سکتا ہے۔ ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹ ملتان نے ہفتے کے دن جنید حفیظ کو پھانسی کی سزا کے ساتھ ساتھ عمر قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا بھی سنا دی۔ اب وہ لاہور ہائیکورٹ میں اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں۔

نیوز ویک پاکستان کے مطابق حفیظ الناصر جنید حفیظ کے والد نے بتایا کہ ان سات سالوں میں ان کا کاروبار تباہ ہو چکا ہے۔ وہ سماجی سطح پر آئیسولیشن کا شکار ہیں۔ کوئی وکیل ان کا کیس لینے کو تیار نا تھا۔ جنید کے پہلے وکیل چوہدری مدثر نے جان کی دھمکیوں کے سبب کیس سے علیدگی اختیار کر لی۔ ان کے دوسرے وکیل راشد رحمان کو دوہزار چودہ میں قتل کر دیا گیا۔

جنید کے والد بتاتے ہیں کہ جنید پاکستان میں شاندار تعلیم کیریر کا مالک تھا۔ جس نے دوہزار نو میں امریکہ میں فل برائٹ سکولر شپ کہ بدولت لٹریچر کی تعلیم حاصل کی اور دوہزار گیارہ میں واپس آ کر بہاؤ دین ذکریا یونیورسٹی میں ویزٹنگ لکچرار کے طور پڑھانا شروع کیا۔ شروع سے ہی اعلی ذہنی صلاحیتوں کے بدولت اس نے جلد سٹوڈنٹس کے دل جیتنا شروع کیے۔

اسد جمال، جنید حفیظ کے وکیل کے مطابق ایک مذہبی جماعت نے ان کی صلاحیتوں اور سوچ سے متصادم ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی میں ان کے خلاف توہین کے پفلٹ تقسیم کیے اورپولیس کی ابتدا ئی ایف آئی آر کے مطابق جنید حفیظ ایک فیس بک پیج کا ایڈمن تھا۔ وہاں کسی ممبر نے توہین والی ایک پوسٹ کر دی جس پوسٹ کو ریموو نہیں کیا گیا اور بعد میں توہین کے مختلف مقدمات قائم کیے گئے۔

جنید کے والد کہتے ہیں کہ اس کے صحت مسلسل قید تنہائی میں گر رہی ہے۔ میں ہفتہ وار جیل ویزیٹ پہ میں جب جنید کو ملنے جاتا ہوں تو ہم دونوں خاموش غم زدہ بیٹھے رہتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو مسلسل دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تکلیف اور بے بسی میں بس ہمارے آنسو آنکھوں سے گالوں پر آ جاتے ہیں۔

یہ حالات دیکھ کر میں سوچتا ہوں کاش جنید حفیظ تم پاکستان نا آتے۔ کاش تم دنیا میں کہیں اور خوش وخرم زندگی گزار رہے ہوتے اور یہاں آ کر تم نے کیا پایا۔ ایک ایسی نسل جو بقول جان ایلیا کے اس صدی میں گھسیٹ کے لائی گئی ہے۔

اور استاذی وجاہت مسعود نے بجا طور پر اسے اپنی کتاب محاصرے کا روزنامچہ کہا تھا۔ ہم تاریخ کے ایوان میں محصور نسلیں ہیں جن پر چاروں طرف سے یلغار الگ اور اندر کی افراتفری سوا۔ کوئی نہیں جانتا وہ لمحہ کب آئے جب آسمان کو دیکھتے ہوئے تیروں کی بوچھاڑ کا خوف نہ رہا ہو، وہ سورج کب نکلے جو سلاخوں کی تقسیم سے سالم آزاد ہو۔ ہم لوگ نہیں بگولہ ہیں، منزلوں کے بیچ خود میں سر پٹکتے دیوانے جن کا کوئی قدم سیدھا نہیں پڑتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments