چائے والا کے بعد تھپڑ والا


آج ذکر ہے ملکی وغیر ملکی سپر ڈوپر ہٹ \” چائے والا\” کا۔۔۔\"rabia

نیلے رنگ کے لباس میں نیلی آںکھوں کے ساتھ اس چائے والے نے چند ہی گھنٹوں میں وہ عروج پا لیا، جو پڑوسی ملک کے چائے والے کو آج تک نہ ملا، اس لیے کہ وہ چائے تو پلاتا تھا لیکن اس کے ہاتھ معصوم لوگوں کے خون سے سرخ تھے، پہلے 2002 میں گجرات اور اب مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام۔۔۔

سیاست سے ہمیں کوئی لگاؤ نہیں اس لیے بھارت کے چائے والے کو ذرا سائیڈ لائن کرتے ہیں، ڈان اخبار کی ایک صحافی خاتون نے پاکستانی چائے والے کی تصویر انسٹا گرام پر کیا شئیر کی، ہر جنس (لڑکے، لڑکیوں) کی جانب سے تعریفی بیانات آئے، شئیرنگ اور ٹوئیٹر ٹرینڈ نے تو کمال ہی کر دیا، کچھ دل جلوں نے اپنی تصاویر ڈال کر چائے والا سے موازنہ شروع کر دیا۔

اور کچھ نے تو ہر پالش والے، کھانے والے، بال والے، ٹکٹ والے، چورن والے، مُہر والے، جوس والے، کتابوں والے کی تصاویر لیں اور شئیر کیں۔

ایسے میں سارے پیشہ ور سج بن کر نوکریوں میں آنے لگے شاید ہمارا بھی کوئی چانس بن جائے، \”چائے والا\” کی طرح کوئی فلم میں لے لے، ماڈلنگ کروا لے، خبروں کی زینت بن جائیں ، انٹرنیٹ سینسشن ہی کہلوا لیں، کچھ نہیں تو دو چار لوگوں میں عزت ہی بن جائے گی، اسی چائے والا کی دیکھا دیکھی کچھ مرد حضرات نے چائے بنانا ہی سیکھ لی۔

کچھ جو دنیا سے کترائے بیٹھے ہیں لگے میڈیا اور سوشل میڈیا پر لعن طعن کرنے، کہتے ہیں \”خواتین کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے، \"arshad\"ہمارے ملک میں ایسے خوش شکل بہت، خوبرو، جی دار بہت ، ایسے کمانے والے بہت، یہ تو ارشد یعنی چائے والا کی توہین ہے،اس کے کام کی توہین ہے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں یہاں چائے والا کو راتوں رات اسٹار بنا دیا گیا\”

چاہے اگر یہ دل تو کیا روشن جہاں کر دے

  اس کی عنایت ہو تو ذرے کو خدا کر دے

میڈیا کا حال بھی شاید کچھ ایسا ہی ہے۔۔۔

 بس تو یہاں ہوا نہیں، اک اور پھلجھڑی کہہ لیں \”تھپڑ والا\” بھی ۔۔۔ حرکت تو انتہائی نازیبا تھی لیکن وہی سوشل میڈیا پر تنقید برائے تنقید کا طوفان برپا ہے، تھپڑ والا کی اسٹوری بھی کمال ہے، اک ٹی وی چینل کی اینکر نادرا کے آفس گئیں عوام کے مسائل سننے، اور حسب طریقہ آفس کے اندر جانے کی کوشش کی، سرکاری اداروں میں ایسے ہی کسی کو تھوڑی اندرجانے دیتے ہیں، زبردستی کرنے پر اہلکار نے منع کیا، کیمرہ چھیننے کی دھمکی دی، پر شاید بال کی کھال اتارنا ضروری تھی، خاتون صحافی نے چیخنا شروع کر دیا، اس اہلکار کے پیچھے پیچھے، بلند آواز میں نازیبا الفاظ کہے آن ریکارڈ عوام کے سامنے۔۔\"250c18d300000578-2925926-image-a-7_1422230507107\"

اب بار بار ایسا کرو گے تو ایسا تو ہوگا ہی نا۔۔ وہ بیچارا بھی اہلکار تھا، آفیسر تو نہیں جو قانونی کارروائی کرتا، اسے ماں بہن یاد دلائی تو اس نے بھی چہرے پر ایک تھپڑ جڑ دیا، شور مچنے پر اہلکار فائر کرتے ہوئے فرار ہو گیا۔

اہلکار کا کیا گیا، کیا نہیں۔۔۔ خاتون نے واقعے کے بعد عوامی ردعمل لینا شروع کردیا، کچھ ہنستے مسکراتے شہرت کے دل دادہ کیمرہ میں بیان کرنا شروع ہو گئے

\” جی! میں نے دیکھا اس نے آپ کے منہ پر چماٹ رکھ کر دیا اور فائر کرتا ہوا بھاگ گیا\”

چینل نے خوب بریکنگ چلائی، واقعہ بھی، تھپڑ بھی، عوامی ردعمل (واکس پاپس) سیاق و سباق بھی، ایف آئی آر بھی درج ہو گئی، حکام بالا اور صحافتی تنظیموں کو بھی اس کارخیر میں حصہ ڈالنے کو کہا۔ لیکن ریٹنگ آئی نہیں ۔۔۔

\"download-23\" سوشل میڈیا پر تھپڑ والا تو جگر والا مشہور ہوگیا، لیکن خاتون ۔۔۔

اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ عزت نفس کا بھی خیال رکھیں، اپنے عورت ہونے کا بھی خیال رکھیں، صحافت کبھی یہ نہیں سکھاتی کہ آپ کسی کو سرعام \”شرم\” یاد دلائیں یا گھر والے، کسی کے پیچھے ہاتھ دھو کر نہ پڑجائیں،

اور خدارا ! سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں، پہلے اپنی عزت ہے پھر ملازمت اور ذمہ داری، کیونکہ آپ کی ذرا سی بے احتیاطی سے کئی لوگوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہیے۔

یقین مانئیے!

اس واقعے کے ردعمل میں صرف خاتون صحافی کو ہی قصور وار ٹھہرایا جارہا ہے

لیکن ہمارا معاشرہ، اقدار، کسی صورت اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ کسی خاتون پر ہاتھ اٹھایا جائے۔

اس سے کچھ ملتے جلتے واقعات اکثر عمران خان کے میلوں مطلب ہے جلسوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، جس کی عمران خان کبھی تردید اور کبھی الزامات کہہ کر ٹال دیتے ہیں،

گزشتہ برسوں میں کراچی آمد پر عمران خان کے جلسے میں ایک چینل کی رپورٹنگ ٹیم اور اینکر پرسن کو بھی ہراساں کیا گیا، جس کا چینل\"hqdefault\" نے بھرپور فائدہ اٹھایا، لیکن کسی رپورٹر اور اینکر نے غیرذمہ دارانہ حرکت نہ کی ، وہاں کھڑے لوگوں سے واقعے کے چشم دید گواہ ہونے کا ثبوت نہیں مانگا۔

خیر! اجتماعی طور پر حاصل یہ ۔۔۔کہ ہم سب ایک بے حس قوم ہوگئے ہیں، بے ضمیر،جہاں اپنی ماں بہن کا نام آنے پر غیرت جاگتی ہے اور دوسرے پر حملہ کرکے اپنی تربیت کا ثبوت دیا جاتا ہے، کہ گھروالوں کے ساتھ کیا رویہ ہو گا۔

تعلیم حاصل کرنے کا رجحان تو جیسے ختم ہوگیا ہے، تو تربیت کیسے دی جائے۔

شاید اس لئے کہ روزگار کے مواقع نہیں، کم تعلیم میں تو جوتے بھی پالش ہو جاتے ہیں، اور چائے بھی بن جاتی ہے، لیکن پڑھ لکھ کر عزت کی پرواہ ضرور ہوتی ہے،

کوئی پیشہ کم یا زیادہ نہیں ہوتا، ہاں پر دووقت کی عزت کی روٹی سب کے لیے اہم ہے۔ ہر کوئی منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوتا، ہر کسی کے گھر میں کمانے والا مرد نہیں ہوتا، اس لیے خواتین کو بھی گھروں سے نکلنا پڑتا ہے، شانہ بشانہ چلنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ موقع ملنے پر انہیں ہراساں کیا جائے، زدوکوب کیا جائے، اسے کم تنخواہ پرزیادہ کام لیا جائے، بات بات پر گھروالوں کے طعنے ملیں ارو عورت ہونے کے طعنے دئیے جائیں۔\"sana-mirza-harassment\"

عزت واحترام سب کا لازم ہے، عزت دیجیئے اور لیجئے، تعلیم حاصل کریں اور ایک بہتر شہری بن کر ملک وقوم کی خدمت کریں۔

اچھی یا برُی شہرت صرف چاردن کی چاندنی ہے۔

اس کے بعد، داستان تو خیر کیا ہو گی، ردی اخبار کے آخری صفحے پر۔۔

ربیعہ کنول مرزا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ربیعہ کنول مرزا

ربیعہ کنول مرزا نے پنجاب اور پھر کراچی یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ صحافت میں کئی برس گزارے۔ افسانہ نگاری ان کا خاص شعبہ ہے

rabia-kanwal-mirza has 34 posts and counting.See all posts by rabia-kanwal-mirza

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments