قومی غیرت اور اقتدار اعلٰی


یکم اپریل 2001 کو امریکہ کا ایک جاسوس طیارہ بین الاقوامی سمندری حدود پر پرواز کرتے ہوئے چین کے حینان آئی لینڈ کی حدود میں داخل ہوا تو چین نے اسے اپنے لڑاکا طیاروں کے ذریعے گھیرے میں لے کر اترنے پر مجبور کردیا۔ اس جاسوس جہاز کی ٹکر سے چین کا ایک لڑاکا طیارہ سمندر میں گر کر تباہ ہوا اور اس کا پائلٹ مرگیا۔ جہاز اور اس پر موجود عملے کی واپسی پر چین اور امریکہ کے درمیان چپقلش پیدا ہوئی جو کئی مہینے جاری رہی۔

امریکہ کہتا تھا ہمارا جہاز بین الاقوامی ہوابازی حدود میں محو پرواز تھا جس میں ہر ملک کو جہاز اڑانے کی اجازت ہوتی ہے۔ چین کہتا تھا یہ ہمارے حدود میں اڑ رہا تھا، اس نے ہم سے اجازت نہیں لی تھی اور اس کی ٹکر سے ہمارا جہاز تباہ اور پائلٹ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اب امریکہ اس دخل اندازی پر چین سے معافی مانگے اور جہاز کی تباہی اور پائلٹ کے خون بہا کے طور پر ایک ملین ڈالر ادا کرے۔ امریکہ نے بالآخر دس دن بعد معافی مانگ لی تو اسے اپنے 24 اہلکار مل گئے۔ جہاز کو واپس لے جانے کے لیے گئے ہوئے اس کے پائلٹس کو مگر خالی ہاتھ آنا پڑا۔

چین نے کہا اب یہ جہاز ہماری سرزمین سے نہ خود اڑا کر اور نہ ہی اسے سالم حالت میں کسی دوسرے امریکی جہاز میں لے جایا سکتا ہے بلکہ اب اسے پرزے کرکے لے جانا پڑے گا۔ یوں اس جہاز کے پرزے صندوق میں بند کرکے ایک روسی جہاز میں لے جاکر امریکہ کے حوالے کیے گئے۔ اس کے ساتھ ایک اور کام بھی کیا گیا۔ امریکی اہلکاروں اور جہاز کو لے جانے، رکھنے، اہلکاروں کے کھانے پینے اور جہاز کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے واپس بھیجنے کے سارے اخراجات کی مد میں امریکہ سے 34567.89 ڈالرز بھی وصول کیے گئے۔

کیا آپ سوچ رہے ہیں چین ایک طاقت ور ملک ہے وہ اپنے قومی غیرت کے حوالے سے حساس ہو سکتا ہے اور اپنی مرضی بھی منوا سکتا ہے جبکہ غریب اور کمزور ملک آزادی سے اپنے فیصلے خود کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے؟ چلیے آپ کو اپنے ملک کی تاریخ سے ہی چند مثالیں دیتے ہیں جب ہمارے سابقہ حکمران طاقت ور ممالک کے سامنے ڈٹے رہے اور انہوں نے آزادی کے ساتھ اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے۔

یہ 1962 کی بات ہے۔ جنرل ایوب خان ملک کے سربراہ ہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان رابطے اور گرم جوشی بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کو پتہ چلتا ہے تو وہ پاکستان کو اس وقت امریکہ کے دشمن چین سے دور رہنے کا کہتا ہے مگر پاکستان ماننے سے انکار کر دیتا ہے کہ چین سے تعلق اور دوستی اس کے ملکی مفاد کا تقاضاہے اور یہ تعلق کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہے۔ یہی امریکہ بعد میں پاکستاں کی منت کرتا ہے کہ وہ چین سے اس کی مذاکرات اور تعلقات قائم کرنے کا ذریعہ بنے۔

1969 یاد آرہا ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کا اجلاس مراکش کے دارالحکومت رباط میں ہو رہا ہے۔ ہندوستان کو بھی تب ساٹھ ملین مسلم آبادی کی وجہ سے بطور رکن شرکت کرنے کی دعوت دی جا چکی ہے اور اس کا وفد شرکت کرنے پہنچ چکا ہے۔ یہ سن کر صدر پاکستان جنرل یحیٰی اجلاس میں آنے سے تب تک انکار کردیتے ہیں جب تک ہندوستان کو بطور ممبر اجلاس میں شرکت کی دعوت واپس نہیں لی جاتی۔ اجلاس کا وقت صبح دس بجے مقرر ہے مگر وہ اپنی جائے قیام سے باہر آنے سے منکر ہیں۔

انہیں منانے عرب ملکوں اور ایران کے رہنماء جاتے ہیں مگر ناکام ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہندوستانی وفد کو کانفرنس کو ناکامی سے بچانے کے لیے اپیل کی جاتی ہے کہ آپ مکمل رکن کے بجائے آبزرور کی حیثیت سے شریک ہوں یا اجلاس میں آنے سے اجتناب کریں مگر وہ بھی نہیں مانتے۔ ادھر صدر پاکستان بھی نہیں آرہے۔ کانفرنس ہال میں دوسرے ملکوں کے وفودبیٹھے ہیں پاکستانی صدر کا انتظار کررہے ہیں۔ اجلاس ملتوی ہوتا ہے بالآخر اگلے روز جب صدر پاکستان کی بات مان لی جاتی ہے اور ہندوستانی وفد کو اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ واپس لے لیا جاتا ہے اور اسے اجلاس میں شرکت نہیں کرنے دی جاتی تو صدر پاکستان اجلاس میں پہنچ جاتے ہیں۔

آئیے اب 1974 کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد دوبارہ اس قسم کی صورت حال سے بچنے اور عالم اسلام کے اتحاد کو یقینی کے لیے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا اجلاس بلاتا ہے تو امریکہ وزیراعظم بھٹو کو ایسا نہ کرنے کا کہتا ہے اور نہ ماننے کی صورت میں اسے نشان عبرت بنانے کی دھمکی دیتا ہے مگر پاکستان اس کی بات ماننے سے انکار کرلیتا ہے کہ اپنے خارجہ پالیسی کے فیصلے وہ اپنے مفاد کے تحت کرے گا نہ کہ ان کے کہنے پر۔

اور وہ وقت بھی یاد کریں جب پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا تو امریکہ اور دوسرے ملکوں نے اسے ”اسلامی بم“ بنانے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، پابندیاں لگائیں، ہمارے حکمرانوں کو دھمکیاں دیں مگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے نواز شریف تک سب ڈٹے رہے اور ایٹم بنانے پر کام جاری رہا۔ بعد میں بے نظیر بھٹو مرحومہ کے دور میں بیلسٹک میزائل اور ان کے بنانے کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کی گئی اس لیے کہ ایسا کرنا ملک کی سلامتی کے لیے ضروری تھا اور یہی ملک کے مفاد میں تھا۔

1998 کی یاد آرہی ہے جب ہندوستان نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے اور پاکستان کو دھمکیاں دینی شروع کردیں۔ اس وقت کی نواز شریف حکومت نے اس پر مذہب، سیاست، سماج اور صحافت سمیت ہر شعبہ زندگی سے منسلک لوگوں سے مشورے شروع کر دیے کہ کیا کیا جائے۔ اس دوران خفیہ طور پر جوابی ایٹمی دھماکوں کی تیاری بھی جاری رہی۔ دنیا کی طاقت ور انٹلی جنس ایجنسیوں کو شک تھا کہ پاکستان تیاری کررہا ہے لیکن جگہ کا پتہ نہ تھا۔ دنیا کے مختلف ممالک کے رہنماؤں نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کی کوششیں شروع کردیں، دھمکیوں سے کام نہ چلا تو امریکی صدر نے خود وزیراعظم نواز شریف صاحب کو فون کرکے دھماکے نہ کرنے کے عوض پانچ ارب ڈالرز اور مزید امداد کی پیشکش کی لیکن حکومت نے 28 مئی 1998 کو چھ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو پہلا مسلم ایٹمی طاقت بنادیا۔

2003 میں پاکستان نے عراق کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت کی اور جنگ میں حصہ لینے کے لیے اپنی فوج نہ بھیجی۔ جنگ کے بعد امریکہ اور برطانیہ پاکستان پردباؤ ڈالتے رہے کہ وہ عراق میں قیام امن میں مدد دینے کے لیے اپنی فوج بھیجے مگر پاکستان سمجھتا تھا کہ عراق میں صورتحال خطرناک تھی اور وہاں فوج بھیجنا نقصان دہ ہوگا۔ یوں پاکستان نے ایک دفعہ پھر اپنے مفاد میں فیصلہ لیا۔

نومبر 2011 میں امریکی فوج نے پاکستان افغانستان سرحد پر سلالہ کے مقام پر ایک کارروائی میں 28 پاکستانی فوجی شہید کردیے۔ پاکستان نے اس کے نتیجے میں نیٹو سپلائی لائن منقطع کردی۔ پاکستان کا مطالبہ تھا امریکہ اس پر معافی مانگے اور قصورواروں کو سزا دے۔ امریکہ چاہتا تھا اس کے بغیر سپلائی لائن بحال کی جائے۔ وہ پاکستان پر مہینوں دباؤ ڈالتا رہا مگر جب تک جولائی 2012 میں اس نے معافی نہیں مانگی پاکستان نے نیٹو سپلائی لائن بحال نہ کیا۔ اس سے پہلے جب امریکی سیکرٹری دفاع نے کہا کہ ہمارا صبر تمام ہورہا ہے تو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے امریکی وفد سے ملاقات منسوخ کردی تھی۔

2011 ہی میں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہوا۔ اس نے دو پاکستانیوں کو قتل کیا اور پاکستان نے اسے گرفتار کرکے اس پر مقدمہ شروع کیا۔ یہ امریکہ کے بقول ایک سفارتی اہلکار تھا جسے گرفتارکیا جا سکتا تھا نہ اس پر مقدمہ چلایا جاسکتا تھا۔ امریکہ نے پاکستان پر بے انتہا دباؤ ڈالا کہ ریمنڈ ڈیوس کو فوراً رہاکرے مگر پاکستان ڈٹا رہا۔ پاکستان نے ان کے سفارت کاروں کی تعداد اور سرگرمیاں انتہائی محدود کردیں۔ با الآخر امریکی حکومت نے ان بندوں کے خاندان والوں کو خون بہا دے کر ریمنڈ ڈیوس کو معافی دلوائی اور یوں عدالت میں راضی نامہ پیش کرکے اس کی جان بخشی کروائی۔

آئیے اب 2015 کی طرف آتے ہیں۔ سعودی عرب، یو اے ای اور اس کے دیگر عرب اتحادی یمن میں اس کے بقول ایران نواز ہوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ایک فوجی اتحاد تیار بنایا جا رہا ہے جس میں پاکستان کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں نواز شریف کی حکومت ان دو ملکوں کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتی لیکن اس جنگ میں شریک بھی نہیں ہونا چاہتی۔ بالآخر حکومت وہاں فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ کرتی ہے کہ پاکستان مزید دوسروں کی ایک غیر ضروری جنگ میں آخر کیوں کودے۔ اس سے یقیناً سعودی عرب اور یو اے ای ناراض ہوئے اور نواز شریف کو اس کا اقامہ کے معاملے پر نقصان بھی ہوا مگر جنگ میں نہ کودنے کا فیصلہ انہوں نے پاکستان کے مفاد میں لے لیا تھا۔

اب ہم 2019 کی بات کرتے ہیں۔ کشمیر میں ہندوستان ظلم و ستم کا بازار گرم کر چکا ہے۔ پاکستان او آئی سی کا اجلاس بلانا چاہتا تھا۔ لیکن سعودی عرب اور یو اے ای نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ الٹا مودی کو ایوارڈز سے نوازا گیا۔ پھر او آئی سی کا اجلاس ہوا جس میں ہندوستان کو بلایا گیا۔ پاکستان نے اس پر احتجاج کیا لیکن ”برادران اسلام“ نے اس کی بات کو توجہ ہی نہیں دی۔ چنانچہ اس نے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا لیکن اسے منانے کسی نے آنے کی زحمت ہی نہیں کی۔

2019 ہی کے ستمبر میں ملائیشیا، ترکی اور پاکستان کے سربراہان نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ مسلم امہ کے مسائل کو کماحقہ کوریج دینے، اسلاموفوبیا کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنے اور صحیح اسلامی بیانیہ کی ترویج کے لیے یہ تین ممالک ایک مشترکہ چینل بنائیں گے اور ایک مشترکہ کرنسی بھی لانچ کریں گے۔

ترکی، ملائشیا اور ایران نے کشمیر کے مسئلے پر کھل کر ہمارا ساتھ دیا حتیٰ کہ ملائشیا سے ہندوستان نے اربوں ڈالرز کا خوردنی تیل درآمد کرنے کا آرڈر کینسل کردیا۔ اب ہمارے وزیراعظم کی منظوری سے اسی ملائشیا میں مسلم ممالک کا اجلاس بلایاگیا جس میں شرکت کا ہمارے وزیراعظم نے وعدہ کیا۔ اچانک وزیراعظم صاحب سعودی عرب چلے گئے اور وہاں شہزادہ سلمان سے ملے تو وہاں سے ہی خبر آگئی کہ وزیر اعظم صاحب ملائشیا نہیں جائیں گے۔

پاکستانی وزیرخارجہ نے اس پر کہا کہ ملائشیا اجلاس پر عرب ممالک کو تحفظات تھے جبکہ پاکستان امت میں انتشار نہیں چاہتا۔ ترک صدر نے کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو چالیس لاکھ پاکستانی کارکن سعودیہ عرب سے نکالنے اور سٹیٹ بنک میں رکھی اپنی رکھی گئی رقم واپس لینے کی دھمکی دے کر ملائشیا اجلاس میں جانے سے روکا ہے۔ تاہم پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نے اس تاثر اور بیان کی تردید کی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو ڈرا دھمکا کر اجلاس سے روکا ہے۔

اگر واقعی پاکستان کو دھمکی دے کر ملائشیا کے اجلاس میں جانے سے روکا گیا ہے تو سوال یہ ہے ہم نے ان کے کہنے پر کیوں فیصلہ تبدیل کیا اور وہ بھی ان کے خلاف جو ہر سخت وقت میں اِن کے برعکس ہمارے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ اور سوال یہ بھی بنتا ہے کہ اب کون ہماری بات پر اعتبار کرے گا یا کشمیر کے مسئلے پر ہمارے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار ہوگا؟

اگر کوئی کہے کہ سعودی عرب نے تو نہی روکا لیکن وہاں نہ جانے میں ہی پاکستان کا فائدہ تھا تو پھر وہاں جانے کا وعدہ کیوں کیا گیا۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے فیصلہ کرنے والے دور اندیشی سے عاری ہیں۔ انہوں نے ترکی اور ملائشیا کے ساتھ نئے اتحاد اور پھر اجلاس میں شمولیت کا وعدہ اور فیصلہ اس کے تضمنات پر سوچے بغیر کیا۔ اگر یہ بات ہے تو یہ تو ملک کے مستقبل کے لیے اور بھی خطرناک بات ہے۔

قومی اقتدار اعلیٰ کا تقاضا ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے اندرونی اور بیرونی فیصلے اپنی آزاد مرضی سے، بغیر کسی کے دباؤ اور مجبوری کے، اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments