مولا نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا!


سردی، دھند، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے درمیان، ٹھنڈ سے تھر تھر کانپتے خصوصی عدالت کا فیصلہ سنا ۔ ایک لمحے کو لگا کہ زمین اپنے محور پہ الٹی گھوم گئی ہو۔

بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کا وہ دن آنکھوں کے آگے آ گیا جب بوٹوں کی دھڑدھڑاہٹ سے سول اداروں کے برآمدے اور راہداریاں گونج اٹھی تھیں۔ پرویز مشرف کی مطلق العنان آواز اور وہ جملے جو میں سے شروع ہو کر میں پہ ختم ہو تے تھے، رہ رہ کر سنائی دینے لگے، جیسے بیس برس نہ گزرے ہوں ابھی کل کی بات ہو۔

ضیاء الحق کا مارشل لا ہمارا بچپن کھا گیا تھا اور پرویز مشرف کا مارشل لا ہماری جوانی نگل گیا۔ شائد ہماری نسل پیدا ہوتے ہی بوڑھی ہو گئی تھی ورنہ کس میں مجال تھی کہ یوں بندوق تانے ریڈیو، ٹی وی کی عمارتوں پہ قبضہ کرتا؟ ہم فتح ہوئے، بار بار فتح ہوئے ۔ معاشی ترقی کا لالی پاپ دے کر بہلائے گئے۔

مجھے اسکندر مرزا، ایوب خان اور یحیی خان کے مارشل لا دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ مگر ایک سے دوسرے مارشل لا میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ انگریزی محاورے کے مصداق اگر پوچھا جائے کہ ایک مارشل لا سے برا کیا ہو سکتا ہے تو جواب یہ ہی ہو گا ’دو مارشل لا‘ ۔

ریاست پاکستان بے چاری تو پانچ مارشل لا بھگت چکی ہے۔ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔ یہ بات کسی نعرے سے نہیں دبائی جا سکتی۔ اقتدار اعلی خدا کو خاص ہے اور پاکستانی عوام اس اختیار کو بطور امانت اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعےاستعمال کریں گے۔ قرار داد مقاصد میں یہ بات وضاحت کے ساتھ لکھی گئی۔ کسی جگہ اس بات کا ذکر نہیں کہ طاقت کا سرچشمہ کوئی ’مقدس ادارہ‘ ہے۔ یہ بات ہمیں بدنام زمانہ ’مطالعہ پاکستان ‘ ہی میں پڑھائی گئی تھی۔ تب بھی یہ ہی سوال ذہن میں آتا تھا کہ ’منتخب نمائندے‘ کیا ہوتے ہیں؟ ہم نے تب تک منتخب نمائندے نہیں دیکھے تھے۔

مشرف

ٹیلی ویژن پہ سفاک لہجے اور سرد آنکھوں والا ایک باوردی شخص کبھی کبھار آ کے عجیب دھمکی آمیز لہجے میں کچھ کہہ جاتا تھا۔ مطلب تو سمجھ نہیں آتا تھا مگر اس شخص کی بدن بولی عجیب طرح سے ڈراتی تھی ۔

اس وقت تک غاصب کا لفظ میری چند لفظوں کی ڈکشن میں نہ تھا مگر بعد میں جب یہ لفظ پڑھا تو ذہن میں سوائے ضیاء الحق کے کسی کا چہرہ نہ آیا۔

مجھے مشرف اور ضیا کا چہرہ کبھی ایک دوسرے سے فرق نہیں لگا۔ وہی سفاک آنکھیں، وہی سرد لہجہ، لہجے میں وہی دھمکی ،انداز میں وہی اکڑ فوں اور چال میں وہی اچکا پن۔

میرے گاؤں میں کتنے ہی ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی رہتے ہیں میرا آدھا خاندان فوج میں ہے، کتنے ہی اچھے دوست فوجی ہیں مگر یقین جانیے ان کے چہرے، ان کی چال اور ان کا انداز، ان آمروں سے بالکل فرق ہوتا ہے۔ آپ کے میرے جیسے، سیدھے سادھے شریف انسان، اپنے ملک کے لیے جان دینے کو تیار۔ ہماری طرح ان کی مجبوریاں اور ان کا ڈسپلن انہیں ان آمروں کے آگے خاموش رکھتا ہے لیکن اس کا بالکل بھی یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی آمر اپنے انجام کو پہنچنے لگے تو ان سب میں ’غم وغصہ‘ پیدا ہو جائے۔

یہ بات میں پوری ذمہ داری سے بطور ادیب اپنے مشاہدے کے تحت کہہ رہی ہوں اور ادیب کسی ایک ادارے کا نہیں پورے معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے۔ فوج، عدلیہ، مقننہ اور دیگر تمام ادارے، عوام کی طاقت کے تابع ہیں۔ جدید ریاستوں میں ادارے اس لیے وجود میں آئے کہ عوام کے ازلی اور ابدی حق کی حفاظت کر سکیں۔ بد قسمتی سے ہمیں جو ادارے ملے وہ نو آبادیات کو چلانے کے لیے بنائے گئے تھے۔

پاکستان کسی ادارے کی نو آبادی نہیں ہے۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے، جہاں آئین ایک مقدس دستاویز ہے اور وہ تمام لوگ جو اس دستاویز سے منحرف ہوئے، غداری کے مرتکب ہوئے اور قانون کی رو سے مقرر کردہ سزا کے حقدار ہیں۔

یہ ایک واضح اور دو ٹوک بات ہے اور اس پہ ناراض ہونے کی بجائے آئندہ آئین کے ساتھ کھلواڑ بند کیا جائے۔ عوامی نمائندے برے ہیں یا بھلے، انہیں سدھارنا، ان سے جواب لینا عوام کی ذمہ داری ہے۔

خدارا یہ بوجھ ان کے کندھوں پہ ڈال دیجیے۔ عوام اتنے ناتواں نہیں، بائیس کروڑ ہیں اور مزید یہ کہ جب انھوں نے ریاستی اداروں کی صورت میں کئی سفید ہاتھی پالے ہوئے ہیں تو ان ہاتھیوں کو سدھانا بھی ان ہی کا کام ہے۔

مختصرا یہ کہ اپنے کام سے کام رکھیں اور تسلی رکھیں، کوئی انہونی نہیں ہونے جا رہی ،ہمارے آپ کے، سب کے پسندیدہ ناصر ادیب فرما گئے ہیں، ’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا‘ ، چنانچہ بے فکر ہو جائیں۔ عوام کی طاقت پہ نہ سہی مولا کے انصاف پہ تو یقین رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).