جنید حفیظ جیسے احمق لوگوں کے نام، جو لوٹ کے واپس آتے ہیں


جو ہم نے ماضی میں کیا تھا، وہی ہم آج زمانۂ حال میں کرچکے ہیں، اور آئندہ بھی کرنے کا پورا عزم رکھتے ہیں۔ ہمارے اخبارات اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ حِبا نامی پہلی پاکستانی خاتون کو ناسا کے خلائی مشن سے وابستہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ یہ خاتون اپنے معاشرتی خیالات کے ساتھ اگر پاکستان آجائے تو کیا یہ اخبارات اس کے ہونے پر فخر کر پائیں گے؟ کل کو جب عدالت میں اُس کے خلاف توہین مذہب کا فیصلہ سنایا جارہا ہوگا تو کیا ان اخبارات کے رپورٹر کمرہ عدالت سے اسے رپورٹ کرنے کی جرات کرپائیں گے؟

ہم تو خلا میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی سے متعلق آئن سٹائن کے نظریے کو درست ثابت کرنے والی پاکستانی سائنس دان نرگس ماولوالا کے اعزاز پر بھی ٹھیک سے فخر نہ کرسکے۔ کیونکہ ان کا تعلق ایک پارسی گھرانے سے ہے۔ یہ ذہین خاتون ایم آئی ٹی میں شعبہ فزکس کی سربراہ ہیں۔

وہی شعبہ فزکس، جس سے پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کا بھی تعلق تھا۔ وہی ڈاکٹر عبدالسلام، جن کی خدمات کا سارے جہاں نے اعتراف کیا، مگر اپنے ہی ملک کی زمین اُن پر تنگ پڑگئی۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہِ فزکس سے جن کے نام کی تختی ادھیڑکر ہم نے ماضی کے ایک مسلم سائنس دان ابو فتح عبدالرحمن المنصور کے نام کی تختی لگادی۔ وہی ابولفتح، جو فرشتوں کے وجود اور پیغمبروں کے معجزوں کا انکار کرنے کی وجہ سے اپنے زمانے میں فتووں کی زد پر رہے۔ اگر آج وہ پاکستان میں ہوتے تو کیا قائد اعظم یونیورسٹی کے احاطے میں سنگسار نہ کردیے جاتے؟

جنید حفیظ کون ہے؟ یہ تازہ زمانے کی گواہی دینے والے ذہین گواہوں کا ایک تسلسل ہے۔ جنید نے فل برائٹ سکالر شپ پر جیکسن سٹیٹ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ مشکل یہ ہے کہ الٹا لٹک کر بھی اس معاشرے کو فل برائٹ سکالر شِپ کا مطلب اور مفہوم سمجھایا نہیں جاسکتا۔ جنید حفیظ نے تھیٹر اور فوٹو گرافی کو باقاعدہ سبجیکٹ کے طور پرپڑھا اور امریکن لٹریچر کا وہ نمایاں طالب علم رہا۔

یہ ذہین اور بدقسمت طالب علم امریکہ میں رہ کراپنا نام کرسکتا تھا۔ وہاں کی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بن سکتا تھا۔ کانگریس کا نمائندہ بن کر خوش فہم پاکستانیوں کو فخر کرنے کا موقع دے سکتا تھا۔ سچے اور اچھے لوگوں سے اپنی ذہانت، صلاحیت اور کردار کی اعترافی سند لے سکتا تھا۔ مگر وہ ملک کی خدمت جیسے واہمے کا شکار ہوگیا۔ واپس پاکستان جیسے ملک آگیا، جہاں کا دستورِ عمل یہ ہے کہ کام کریں گے اور نہ کرنے دیں گے۔

بھلا ایک شخص جس نے بڑے دماغوں کے بیچ رہ کر تھیٹر پڑھا ہو، وہ اُس ملک میں کیسے ایڈجسٹ ہوسکتا تھا جہاں کا تھیٹر مزاح اور ہذیان کے بیچ کے سارے فرق مٹاچکا ہو۔ جہاں کا تھیٹر عورت اور ٹرانس جینڈرز کی تذلیل کو آرٹ کا لازمی حصہ سمجھتا ہو۔ جہاں کا لٹریچر تحقیر، تذلیل، دہشت، ہراسانی، اشتعال، نفرت، تقسیم، اٹھائی گیری، قبضہ گیری، تسلط، جبراورمداخلت کا بیانیہ ہو۔ جہاں کے سرکاری اداروں میں عقیدے کو اہلیت اور صلاحیت کا درجہ حاصل ہو۔ جہاں کی جامعات میں علم اور مطالعے تک پرعقیدے کی اجارہ داری ہو۔ جہاں وراثت میں ملنے والے نظریوں اور یقینوں سے باہر نکل کر سائنس، تاریخ، فلسفہ، ادب اور معاشرتی علوم کے مضامین پڑھانا توہینِ مذہب کے زمرے میں آتا ہو۔

جنید حفیظ جیسے اساتذہ پاکستان جیسے ملک کی جامعات میں بطور استاد ایک اور ناقابلِ معافی ”جرم“ کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ وہ تدریس اور تحقیق کا معیار بلند کردیتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ وہ ریسرچ سٹینڈرڈز کو بلندی پر لے جاتے ہیں۔ اُس بلندی پر کہ جہاں مطالعہ پاکستان کا ذوق رکھنے والے اساتذہ پہنچنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ طالب علم باقی اساتذہ سے بھی تدریس کے اُسی معیار کی توقع رکھنا شروع کردیتے ہیں۔

جو شب کور اساتذہ اندھوں میں راجے بنے پھرتے ہیں، اُن کے تام جام ماند پڑجاتے ہیں۔ اب محض الف انار بے بکری پڑھاکر وہ اپنا بھرم قائم نہیں رکھ سکتے۔ ایسے میں دو راستے ہوتے ہیں۔ یا تو مزید پڑھ کر اپنی صلاحیت کو بڑھایا جائے یا پھر ڈپارٹمنٹ میں آنے والے اس ذہین استاد کا راستہ روک دیا جائے جس نے قابلیت کے پیمانے بدل دیے ہیں۔ ایک حد سے زیادہ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا قومی مفاد کے خلاف ہے اور ذہین استاد کا راستہ روکنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔

ایک استاد، جو بین الاقوامی جامعات کا پڑھا ہوا ہو، جو وقت کا پابند ہو، جو تیاری کرکے پڑھانے آتا ہو، جو مضمون کا حق اداکرتا ہو، جو شاگرد کو سوال کا حق دیتا ہو، اس کا راستہ روکیں گے بھی کیسے روکیں گے؟ اِس مشکل گھڑی میں لے دے کر ایک ہی ہتھیار رہ جاتا ہے، جو ارزاں بھی ہے اور ناقابلِ شکست بھی۔ قانونِ توہینِ رسالت کا ہتھیار! یہی ہتھیار ڈاکٹر شکیل اوج، پروفیسر شبیرحسین شاہ، ڈاکٹر فاروق خان اور پروفیسر خالد حمید پر چلایا گیا تھا۔ اسی ہتھیار کی بھینٹ جنید حفیظ بھی چڑھ گیا ہے۔ اے لوٹ کے آنے والے ذہین دوستو! اے لوٹ کے آنے والے نادان دوستو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments