طنز آخر ہوتا کیا ہے؟


 

نظریہ ارتقا پر ہمارے ایک طنزیہ مضمون کی اشاعت نے نیٹ پر بہت اودھم مچا دیا ہے اور اب بحث یہ ہونے لگی ہے کہ یہ طنز آخر ہوتا کیا ہے؟ تو آئیے دیکھتے ہیں کہ طنز آخر ہے کیا بلا۔

ادب و صحافت میں طنز کا مقصد عام طور پر چبھن پیدا کر کے کسی معاملے کے احمقانہ پہلو یا پھر برائی کو اجاگر کر کے معاشرے میں اس موضوع پر مکالمے کی سوچ پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ اس کا کوئی مناسب حل نکالنے کی کوشش کی جائے۔ ایک طنز نگار کسی ایسے موضوع یا شخص کو اپنا نشانہ بناتا ہے جس میں اسے کوئی خامی دکھائی دے اور وہ طنز یا پھر مزاح کے ذریعے ان غلطیوں کو سامنے لاتا ہے۔ لازمی نہیں کہ طنز میں مزاح کا پہلو بھی پایا جاتا ہو۔ طنز کا مقصد عوام کی توجہ معاشرے یا افراد کی ان برائیوں کی طرف دلانا ہوتا ہے جو کہ معاشرے کے لئے ضرر رساں ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے نظریہ ارتقا پر ہمارا مضمون کامیاب رہا ہے اور نظریہ ارتقا پر ایک بحث نے جنم لے لیا ہے۔

صحافت کی ایک مشہور تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس کا مقصد رنجیدہ کو سکون دینا اور آسودہ کو غمگین کرنا ہوتا ہے۔ طنز کی بھی یہی تعریف مناسب ہے۔ ڈاکٹر سیموئل جانسن اس کی تعریف کرتے ہوئے اسے ایسی شاعری قرار دیتے ہیں جس میں شرارت اور حماقت کو ملفوف کر دیا گیا ہو۔ جوناتھن سوئفٹ کی رائے میں طنز ایک ایسا آئینہ ہے جسے دیکھنے والے کو اپنے سوا باقی سب کا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔

طنز طاقت ور عوامی انداز فکر یا افراد کو چیلنج کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں ایک متبادل سوچ پیدا کرتا ہے۔

اس کی تین مشہور اقسام ہیں۔ رومی طنز نگار ہوریس مزاح کا سہارا لے کر مذاق کے سے انداز میں بات کرتا ہے۔ اس انداز کو ہوریشن طنز کا نام دیا گیا ہے۔ وہ مسکراہٹوں سے زخم مندمل کرنے کا قائل ہے۔

طنز کی دوسری اہم قسم رومی طنز نگار جووینل کے نام سے منسوب ہے۔ اس طرز میں شخصیات یا نظریات پر حملہ کیا جاتا ہے۔ جووینل مختلف پوائنٹس کو بڑھا چڑھا بیان کرنے سے یا ان کی پیروڈی کر کے طنز پیدا کرتا ہے اور تمسخر انگیز انداز اختیار کرتا ہے۔

تیسری اہم قسم یونانی طنز نگار مینیپس کے نام پر ہے جو کہ مکالمے میں سنجیدگی اور تمسخر کے امتزاج سے طنز تخلیق کرتا ہے۔

طنز ایک مشکل لیکن پرکار ادبی صنف ہے۔ یہ محض کسی کا مذاق اڑا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں طعن و تشنیع، خلاف توقع نتائج نکالنے اور مضحکہ خیز خاکہ بنا کر عام زندگی کے کسی معاملے کو اجاگر کیا جاتا ہے جبکہ ساتھ ساتھ اس معاملے کے مختلف پہلوؤں روشنی بھی ڈالی جاتی ہے۔ انگریزی میں طنز کی صنف کا نمائندہ مضمون جوناتھن سوئفٹ کا ”آ موڈیسٹ پروپوزل“ گردانا جاتا ہے جو کہ ایک جعلی منصوبہ ہے جس میں بے حد غلو سے کام لے کر ملک کے غریبوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر معاشرے کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔

طنز نگاری کرتے ہوئے مختلف ادبی حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مسخ کرنا، کسی معاملے کو نہایت گھٹا یا بڑھا کر بیان کرنا، الفاظ کا کھیل کھیلنا، ابہام، تشبیہ، استعارہ، اپنی ہی تردید کرتے ہوئے لفظ یا جملے، تمثیل اور ذومعنی کنایہ وہ عام طریقے ہیں جن کے استعمال سے طنزیہ تحریر لکھی جاتی ہے۔

ان میں سے ذومعنی کنایہ سب سے دلچسپ طریقہ ہے اور بہت سے افراد کے لئے اسے پانا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس کی مدد سے کسی بھِی معاملے یا فرد پر بالواسطہ تبصرہ کیا جاتا ہے۔ ڈکٹیٹروں اور ظالم حکمرانوں کے خلاف یہ خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے پنجابی کی ایک مشہور ضرب المثل بخوبی بیان کرتی ہے کہ ”کہندی دھیاں نوں، سناندی نوہاں نوں“ یعنی ساس اپنی بیٹیوں پر بول بول کر دراصل اپنی بہو کو سنا رہی ہوتی ہے۔

اس تکنیک میں عام طور پر ابہام کا پہلو بھی رکھا جاتا ہے اور ایک ہی تحریر بالکل متضاد معنی دے سکتی ہے۔ ان میں سے ایک تو سامنے ہی دکھائی دے رہا ہوتا ہے مگر تحریر کی پیچیدگی کے مطابق کچھ غور کرنے پر ایک ذہین پڑھنے والے پر دوسرا مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ سطحی ذہانت کا حامل ایک ایسا شخص جو کہ یہ دوہرے معنی نہ پا سکے، حیران ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اسے پڑھ کر ہنس کیوں رہے ہیں۔

اس تکنیک کو عموماً ڈیڈ پین ہیومر کی سٹائل میں استعمال کیا جاتا ہے جس میں مصنف نہایت سنجیدگی سے کوئی تاثر دیے بغیر ایک تحریر لکھتا ہے جس کا ایک مطلب اس کے الفاظ سامنے ہی دکھا رہے ہوتے ہیں اور دوسرے مطلب تک پہنچنے کے لئے ذہن کو استعمال کرنا پڑتا ہے جس کے لئے تحریر میں کچھ سراغ یا کمزوریاں دانستہ طور پر پیدا کی جاتی ہیں تاکہ پڑھنے والا تحریر میں موجود تضادات کو دیکھ کر اس پر غور کرے۔ انگریزی، خاص طور پر برطانوی سٹ کام ڈراموں میں یہ تکنیک بہت عام ہے جس میں کسی بھی قسم کے تاثر کے بغیر ایک اداکار بظاہر سنجیدہ ہو کر ایک مزاحیہ ڈائیلاگ بولتا ہے۔

اس تکنیک میں غور نہ کرنے والے افراد تحریر کے لغوی معنی کو ہی سچ سمجھ سکتے ہیں اور اپنے ذہن کے مطابق اسے اچھا یا برا جان سکتے ہیں۔ غور کرنے والے لوگ اس تحریر کی حقیقت کو جان کر اس سے لطف اٹھا سکتے ہیں۔ اس تکنیک کی تحریروں میں یہ عام بات ہے کہ لوگ ظاہری مطلب لے کر اور اسے اپنے موقف کی حمایت میں جان کر اسے اپنے موقف کے ثبوت کے طور پر پیش کریں جبکہ درحقیقت یہ تحریر ان کے موقف کا ابطال کر رہی ہوتی ہے۔

اس تکنیک کا نظریہ ارتقا پر استعمال اتنا دلچسپ ہے کہ اس کی بنا پر کلچر میں ایک اصطلاح معروف ہو گئی ہے جس کا نام ”پو کا قانون“ ہے۔ ناتھن پو نامی شخص کے اس قانون کے الفاظ یہ ہیں کہ ”ایک سمائلی یا مزاح کا واشگاف مظاہرہ نہ کیا جائے تو کری ایشنسٹ کی ایسی پیروڈی کرنا ناممکن ہے جسے کوئی ایک حقیقی موقف نہ سمجھ بیٹھے“۔ مفہوم اس قانون کا یہ ہے کہ کسی انتہائی جذباتی وابستگی والے نظریے پر لکھی گئی پیروڈی پر مصنف اگر ایسا واضح ترین اشارہ نہ دے جو کہ اندھوں کو بھی دکھائی دے جائے، تو اسے پڑھنے والے بہت سے لوگ اسے پیروڈی کی بجائے اس نظریے کی حمایت ہی سمجھیں گے۔

حالیہ پاکستانی کلچر میں ذو معنی کنایہ اور ڈیڈ پین ہیومر پر نمائندہ تحریر کی ایک بہت عمدہ مثال ندیم فاروق پراچہ کا ملالہ پر کالم ”Malala: The real story (with evidence)“ ہے جسے ڈان نے اردو میں ترجمہ کر کے ”ملالۓ: ”اصل کہانی“ بمعہ ثبوت“ کے نام سے شائع کیا تھا۔

یہ مضمون وائرل ہو کر ملالہ کے حامیوں کی بجائے اس کے مخالفین میں بے تحاشا پڑھا گیا تھا جنہوں نے اسے طنز کی بجائے حقیقت سمجھ کر پڑھا اور شیئر کیا تھا۔ یہ مضمون شائع ہونے کے دو دن بعد ڈان کو مجبور ہو کر اس پر ایک اعلان چسپاں کرنا پڑا تھا کہ ”نوٹ: یہ ایک طنزیہ اور فرضی مضمون ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں“۔

اردو میں ڈیڈ پین تکنیک کا استعمال عام نہیں ہے۔ ندیم پراچہ بھی اسے اپنے انگریزی مضامین میں استعمال کرتے ہیں جو کہ بعد میں ترجمہ ہو کر ڈان اردو کی زینت بنتے ہیں۔ ملالہ والے مضمون کے بعد سے ندیم پراچہ کے بعض طنزیہ مضامین پر اب ڈان یہ نوٹس لگانے لگا ہے کہ ”یہ ایک طنزیہ مضمون ہے“، مگر ان کے بہت سے طنزیہ مضمون ابھی بھی اس نوٹس کے بغیر شائع ہو ہوتے رہتے ہیں۔

انگریزی میں نہایت سنجیدہ ہو کر طنز کرنے والی اہم ترین ویب سائٹ ”The Onion“ ہے۔ اس پر سیاست، کھیل، کاروبار، شو بزنس، اور سائنس و ٹیکنالوجی کے بارے میں ایسے ہی ڈیڈ پین طنز پر مشتمل مضمون شائع ہوتے ہیں۔ پاکستان میں غالباً اسی سے متاثر ہو کر ”خبرستان ٹائمز“ نامی ویب سائٹ بنائی گئی ہے جس پر قومی و بین الاقوامی، سیاسی، کاروباری، سپورٹس، شو بزنس اور سائنس و ٹیکنالوجی کے معاملاقت پر اسی انداز میں خبریں اور مضامین شائع کیے جاتے ہیں۔

ہمارے بعض جذباتی قسم کے افراد اگر درسی کتابوں سے ہٹ کر ادب کی دنیا پر بھی توجہ دیں اور خاص طور پر بین الاقوامی ادب پڑھیں، تو ان کی جذباتیت میں کمی آنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذہن کے دریچے وا ہونے کا بھی امکان ہے۔ بھیا آپ اپنی جہالت پر دوسرے کو مورد الزام کیوں ٹھہراتے ہیں؟ جذبات کو ایک طرف رکھ کر سوچنا سیکھنے پر توجہ مرکوز کریں، اس طرح آپ مذہبی یا ملحدانہ انتہاپسندی سے محفوظ رہ کر معاشرے کا ایک مفید رکن بن سکیں گے۔

نظریہ ارتقا پر ہمارا مضمون کامیاب رہا ہے اور نظریہ ارتقا پر ایک بحث نے جنم لے لیا ہے۔ اس سے پہلے ہمارے ایک اور طنزیہ مضمون ”دو گمراہ پاکستانی لڑکیوں کی کہانی“ نے اسی انداز میں لڑکیوں کی تعلیم کے ایشو پر بحث کو جنم دیا تھا۔

(یہ مضمون پہلی مرتبہ ہم سب پر   کو شائع ہوا تھا)


اسی بارے میں

انگریزوں کا انسانی بچے بطور خوراک استعمال کرنے کا منصوبہ

ملالئے: ”اصل کہانی“ بمعہ ثبوت

ڈارون کی ارتقا کی تھیوری غلط ہے!


عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments