لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے


رانا ثناء اللہ صاحب سے دو یا تین بار ٹیلی فون کے ذریعے گفتگو ہوئی ہے۔ ذاتی ملاقات کا موقع کبھی نہیں ملا۔ جولائی 2018میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر اسلام آباد آگئے تو امید باندھی کہ ان سے شناسائی کے مواقع ملیں گے۔ چند ہی ماہ بعد مگر وہ گرفتار ہوگئے۔

سیاست کے بے رحم کھیل میں پاکستان جیسے ممالک میں رانا ثناء اللہ جیسے دبنگ اور متحرک افراد اگر اپوزیشن میں ہوں تو مختلف الزامات کے تحت گرفتار بھی ہوجاتے ہیں۔ اقتدار ہمارے حکمرانوں کو شہنشاہت کی جانب راغب کرتا ہے۔ اپنے مخالفین کو دیوار میں چن دینے پر اُکساتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی انہیں ’’کتابی‘‘ محسوس ہوتی ہے۔ تحریک انصاف تو ویسے بھی اس ملک میں ’’پارسا‘‘ سیاست متعارف کروانے کے عہد کے ساتھ برسراقتدار آئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں موجود لوگوں کی اکثریت اس کی نظر میں ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پرمشتمل ہے۔ وہ اقتدار میں ’’باریاں‘‘ لیتے ہوئے قومی خزانے کی ’’لوٹ مار‘‘ میں مصروف رہے۔ انہیں ’’عبرت کا نشان‘‘ بنانا ضروری ہے۔

رانا ثناء اللہ کا دبنگ اندازِ سیاست نظرانداز کرنا تحریک انصا ف کے لئے ناممکن تھا۔ سیاسی تقاضوں کی ذراسی سمجھ رکھنے والے افراد کو بھی اندازہ تھا کہ انہیں کسی نہ کسی مقدمے میں ہر صورت گرفتار کیا جائے گا۔ احتساب بیورو میں موجود افراد ان کے دورِ اقتدار میں کئے فیصلوں سے ’’قومی خزانے‘‘ کو ’’لاکھوں کا نقصان‘‘ پہنچانے کی داستان تلاش کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’سانحہ ماڈل ٹائون‘‘ بھی ہوا تھا۔ اس ضمن میں تحقیقات کے دوران رانا صاحب کو وزارت سے استعفیٰ بھی دینا پڑا تھا۔ طاہر القادری ایک زمانے میں عمران خان صاحب کے ’’کزن‘‘ ہوا کرتے تھے۔ اسلام آباد کے صحافیوں کی اکثریت کاخیال تھا کہ رانا صاحب کو ’’سانحہ ماڈل ٹائون‘‘ کے حوالے سے ’’عبرت کا نشان‘‘ بنایا جائے گا۔

رانا ثناء اللہ کے شدید ترین نقاد بھی لیکن اس وقت حیران وپریشان ہوگئے جب خبر آئی کہ فیصل آباد سے لاہور آتے ہوئے اپنی گرفتاری کا ہمہ وقت انتظار کرتے ہوئے اس سیاست دان کی گاڑی سے ہیروئین کی ’’بھاری مقدار‘‘ دریافت ہوگئی ہے۔ دعویٰ ہوا کہ گاڑی کو روک کر تلاشی لینے والے اہل کاروں کو رانا ثناء اللہ نے ’’ازخود‘‘ وہ بریف کیس پیش کیا جو منشیات سے بھرا ہوا تھا۔ ’’جان اللہ کو دینے والے‘‘ وزیر نے بعدازاں ایک طولانی پریس کانفرنس کی۔ ہمیں یقین دلایا گیا کہ فیصل آباد جیسے سیاسی اعتبار سے بہت ہی متحرک شہر سے تعلق رکھنے والے رانا ثناء اللہ برسوں سے منشیات فروشی کے گھنائونے کاروبار میں ملوث تھے۔ انہوں نے اس ’’حرام‘‘ کام سے قیمتی جائیدادیں خریدی۔ ککھ سے لکھ ہوگئے۔ چھ مہینے گزرجانے کے باوجود رانا صاحب کے خلاف باقاعدہ انداز میں کیس مگر چل نہیں پایا۔ بالآخر لاہور ہائی کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کردئیے۔

منشیات فروشی ایک سنگین الزام ہے۔ اس ضمن میں ہوئی ہائی پروفائل گرفتاریوں پر کئی بین الاقوامی ادارے بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کو اس حوالے سے کئی بار بدنام کیا جاتا ہے۔ رانا ثناء اللہ جیسے قدآور سیاست دان کی اس الزام کے تحت ڈرامائی انداز میں ہوئی گرفتاری لہذا عالمی میڈیا میں بڑی خبر بنی۔ چند عالمی اخبارات اور ٹی وی نیٹ ورکس کے لئے کام کرنے والوں نے اس گرفتاری کے حوالے سے مجھ سے بھی تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی۔ میں شرمندگی میں فقط اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی جند چھڑانے میں مصروف رہا۔

منشیات فروشی کے الزام کے تحت گرفتار ہوئے شخص کی ضمانت ناممکنات میں شمار ہوتی ہے۔ رانا ثناء اللہ کو نصیب ہوئی ضمانت کے بعد ہم بہت اعتماد سے یہ باور کرسکتے ہیں کہ ان کے خلاف بنایا کیس قطعی بے بنیاد اور بودا تھا۔ ایک حوالے سے یہ کیس بلکہ اندھی نفرت کی بدترین مثال ہے۔ ہمارے میڈیا میں چند روز کی گفتگو کے بعد مگر ہم اس کیس کو بھی بھول جائیں گے۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں والا مصرع یاد کرتے ہوئے دوسرے موضوعات میں الجھ جائیں گے۔

اپنی دیہاڑی کویقینی بنانے کے لئے مجھ جیسے صحافی بنیادی سوالات اٹھانے کی جرأت سے محروم ہوچکے ہیں۔ بلندبانگ الفاظ کی جگالی سے خود کو اصول پرست دانشور ثابت کرنے کی منافقت میں مصروف رہتے ہیں۔ ہم میں کوئی ایک صحافی بھی پیشہ وارانہ لگن سے دریافت نہیں کر پائے گا کہ کب ،کہاں اور کن افراد نے یہ فیصلہ کیا کہ رانا ثناء اللہ کو منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد عبرت کا نشان بنایا جائے۔

آج کی صحافت کی محدودات کا دُکھی دل سے اعتراف کرنے کے باوجود میں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کے ٹکٹ پرمنتخب ہونے والے 84اراکین موجود ہیں۔ 342 اراکین پر مشتمل ہائوس میں یہ بھاری بھر کم تعداد ہے۔ رانا ثناء اللہ کے کیس کا مگر ان اراکین نے سرسری انداز میں تذکرہ کیا۔ گرفتاری کے بعد رانا ثناء اللہ کو قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں بھی شرکت کو یقینی نہ بنایا جا سکا۔ شاہد خاقان عباسی بھی ان دنوں نیب کی قید میں ہیں۔ چند روز قبل پروڈکشن آرڈر کی بدولت اسمبلی کے اجلاس میں آئے تو راناثناء اللہ کی عدم موجودگی کی بابت برملا انداز میں واویلا مچایا۔ اس کے بعد وہ احتجاجاَ اجلاس سے واک آئوٹ بھی کر گئے۔ مسلم لیگ (نون) سے تعلق رکھنے والے کسی ایک رکن اسمبلی نے اس ضمن میں ان کا ساتھ نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ واحد رکن اسمبلی تھیں جو ان کے ساتھ اجلاس سے احتجاجاَ باہر چلی گئیں۔

اپنے دفاع میں مجھ جیسے صحافی بآسانی یہ جواز پیش کرسکتے ہیں کہ جس معاملے پر رانا صاحب کے 80 سے زیادہ ساتھی ایک طاقتور تصور ہوتے ہائوس میں خاموش رہے اسے بنیاد بناتے ہوئے ہمیں ’’تحقیقاتی صحافت‘‘ کا پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے۔ رانا ثناء اللہ کی منشیات فروشی کے الزام کے تحت گرفتاری نے بلکہ ان اراکین کی اکثریت کو دہشت زدہ کر دیا تھا۔ ان کے رویے کو دیکھتے ہوئے مجھے اکثر منیر نیازی کا ’’لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرادینا چاہیے‘‘والا مصرعہ یاد آتا رہا۔

رانا ثناء اللہ کے حوالے سے میں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرسکتا کہ ان کی گرفتاری کے بعد مریم نواز شریف صاحبہ فیصل آباد گئی تھیں۔ ایک عالمی ادارے سے تعلق رکھنے والے میرے عزیز ترین دوست نے مجھے زبردستی ان کے دورے کی کوریج کے لئے اپنے ہمراہ لیا۔ ہم فیصل آباد پہنچے تو اس شہر پر ہو کا عالم طاری تھا۔ رانا صاحب کے گھر کے باہر 200سے زیادہ افراد موجود نہیں تھے۔ رانا صاحب کی بیگم وقفوں میں گھر کی چھت سے نمودار ہوکر ان سے خطاب کرتیں۔ اس شہر کی معروف مسلم لیگی قیادت کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ فیصل آباد کے متحرک مسلم لیگی ایک پولیس افسر سے خوفزدہ ہیں۔ اس افسر نے خادم رضوی کی ’’تحریک‘‘ پر ’’قابو‘‘ پایا تھا۔ معروف مسلم لیگی رہ نما اور کارکن اس خوف میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے مریم نواز شریف کے ’’استقبال‘‘ کے لئے گرم جوشی دکھائی تو ان کا انجام بھی رانا ثناء اللہ جیسا ہوگا۔ وہ منشیات فروشی کے ’’سہولت کار‘‘ ٹھہرا دیے جائیں گے۔

مقامی قیادت کی عدم دلچسپی کے باوجود اتوارکی رات کو تقریباَ تین بجے مریم نواز راناثناء اللہ کے گھر پہنچیں تو 60 سے 70 ہزار کے قریب کارکن از خود وہاں جمع ہوگئے۔ مقامی قیادت نے جبکہ کمال مکاری سے یہ بندوبست کیا تھا کہ رانا صاحب کے گھر بروقت پہنچنے کے بجائے مریم نواز مختلف مقامات پر ان کی جانب سے جمع کئے افراد سے خطاب کرنے کو رکتی رہیں۔ رانا صاحب کے گھر کے باہر کارکنوں کی متاثر کن تعداد جمع نہ ہوپائے۔ صبح چار بجے کے قریب ہم فیصل آباد سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے تو میں نے صحافی دوست کو گاڑی میں بیٹھتے ہی ’’اطلاع‘‘ دی کہ میری دانست میں اب مریم نواز شریف کو بھی جلد ہی کسی کیس میں گرفتار کرلیا جائے گا۔ چند دن بعد میرا خدشہ درست ثابت ہوا۔ آفتوں کے اس موسم میں رانا ثناء اللہ جیسے سیاستدان تنہا ہوچکے ہیں۔ ان کی اہلیہ اگر جنونی حد تک اپنے شوہر کا ساتھ نہ دیتیں تو شاید ہم انہیں قطعاََ فراموش کرچکے ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments