شیخ ایاز۔ وفات کی بائیسویں یاد


28 دسمبر 2019 ء کو سندھی جدید ادب کے امام سمجھے جانے والے سندھی اور اردو کے نامور شاعر اور دانشور شیخ ایاز کو ہم سے بچھڑے 22 برس مکمل ہوئے۔ اس حوالے سے آج کی تحریر میں شیخ ایاز صاحب کی زندگی و ادبی خدمات کا مختصراً احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔

شیخ ایاز، 2 مارچ 1923 ء کو سندھ کے پیرس سمجھے جانے والے شہر شکارپور کے شیخ محلے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد، شیخ غلام حسین نے ان کی پیدائش پر اُن کا نام ”مبارک علی شیخ“ رکھا۔ 3 مارچ 1928 ء کو جب ایاز کی عمر پانچ سال ہوئی، تو اُن کو اپنے محلّے کے اسکول، گورنمنٹ پرائمری اسکول نمبر 3 میں داخل کرایا گیا، جہاں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُنہیں ورنیکیولر اسکول شکارپور میں داخلہ دلادیا گیا، جہاں سے 31 مارچ 1934 ء کو 4 جماعتیں پاس کر کے وہ نیو ہائی اسکول شکارپور میں داخل ہوئے۔

31 مارچ 1939 ء کو وہ انگریزی کی پانچ جماعتیں پاس کرنے کے بعد 11 اپریل 1939 ء کو گورنمنٹ ہائی اسکول شکار پور میں داخل ہوئے، اور وہیں سے بمبئی یونیورسٹی کے تحت میٹرک کا امتحان پاس کر کے اپریل 1941 ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ 1943 ء میں سی اینڈ ایس کالج شکارپور سے انٹر اور 1945 ء میں کراچی کے ڈی۔ جے۔ کالج سے بی۔ اے۔ کا امتحان کامیابی سے پاس کرنے کے بعد ایاز نے 1948 ء میں ایل۔ ایل۔ بی۔ کا امتحان پاس کیا اورایک قانوندان کی حیثیت سے عملی زندگی میں قدم رکھا۔ اُنہوں نے قانونی مشق کا آغاز ہائی کورٹ میں عبدالحی قریشی اور جمال صدیقی کے ساتھ جونئیر کی حیثیت سے کیا، جبکہ بعد میں وہ عبدالقادر شیخ کی معاونت کرتے رہے۔ قانون کے داؤ پیچ سیکھنے کے بعد ایاز سکھر میں سکونت پذیر ہوئے اور وہیں پر ہی قانون کی باقاعدہ پریکٹس کرنے لگے۔

ایاز، بچپن ہی سے فکری حوالے سے مضبوط ذہن کے طور پر ابھرے۔ اُن کے انقلابی خیالات اسکول کے زمانے سے ہی پنپنے لگے۔ 20 برس کی عمر میں بقول اُن کے، اشتراکیت کا مطالعہ اُن کا خاص موضو ع رہا۔ شکارپور کے اسکول میں کھیئل داس ”فانی“ جیسے اپنے وقت کے معروف شاعر کی شاگردی میں ایاز کے شاعرانہ فن اور سوچ کو اوج ملا۔ ایاز نے شعر کہنا بچپن ہی سے شروع کر دیا تھا اوراُن کی پہلی نظم شکارپور سے شایع ہونے والے ماہنامہ جریدے ”سدرشن“ کے جنوری۔ فروری 1938 ء کے شمارے میں شایع ہوئی، جس کا عنوان ”مردِ خدا“ تھا۔

وکالت کی طرح اُن کی شاعری کا عکس بھی دن بہ دن نکھر کر بالخصوص سندھ اور بالعموم پورے ملک کے ادبی منظر نامے پر نظر آنے لگا۔ سندھی ادب کے مستند مخزن، سہ ماہی ”مہران“ میں 1955 ء میں ایاز کے 30 کے قریب ابیات کی اشاعت نے اُن کو ایک پُر اثر شاعر کے طور پر متعارف کرایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نئی آواز سے رجعت پسند حلقوں میں بے چینی کی ایک لہر دوڑ گئی۔

اُن کی کتاب ”بھؤنر بھرے آکاس“ کی اشاعت سے ایاز کو ایک بڑے شاعر کا درجہ ملا۔ 1962 ء میں طبع شدہ ایاز کی کتاب ”کُلہے پاتم کینرو“ اور 1963 ء میں شایع ہونے والی کتاب ”جے کاک ککوریا کاپڑی“ کو حکومتِ وقت نے ضبط کر لیا۔

1965 ء میں ایّوب کے مارشلائی دور میں اُنہیں اپنی دھرتی کے حقوق کی حاصلات کے لئے کوشاں رہنے کے جُرم میں گرفتار کر کے، سکھر اور بعد ازاں 1968 ء میں ساہیوال جیل میں رکھا گیا اور وہ ایّوب کے دور کے اختتام تک جیل میں رہے۔ 1970 ء میں وہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ میں شامل ہوئے اور شیخ مجیب کی گرفتاری اور بنگلا دیش کے قیام تک ایاز کو بھی جیل میں رکھا گیا۔ 1976 ء میں ایاز کو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے جامعہ سندھ جامشورو کا وائس چانسلر مقرر کیا، جہاں اُنہوں نے اپنے 4 سال کا مقرّرہ وقت پورا کیا۔

ایک طویل عرصہ سکھر میں گزارنے کے بعد ایاز، 90 ء کی دہائی میں مستقل طور پر کراچی آ گئے، جہاں انہوں نے کلفٹن کے علاقے میں پرنس کامپلیکس اپارٹمنٹ میں زندگی کے آخری ایام بسر کیے۔ وہ طویل عرصے تک دل کی بیماری اور دیگر عارضوں سے لڑتے رہے، جس سلسلے میں وہ لندن تک بھی علاج کرانے گئے۔ زندگی کی یہ جنگ لڑتے لڑتے، وہ 28 دسمبر 1997 ء کو اس دارِ فانی سے کُوچ کر گئے۔ اُنہیں اُن کی وصیت کے مطابق حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کی نگری، بھٹ شاہ میں کراڑ جھیل کے کنارے سپردِ خاک کیا گیا اور اب کراڑ کے ایک لب پر سندھی کا ایک عظیم شاعر اور دوسرے کنارے پر دوسرا عظیم شاعر ابدی نیند سو رہا ہے۔

شیخ ایاز کا پیغام نہ صرف سندھی میں بلکہ اُردو میں بھی صدیوں تک قارئین کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ 50 کے لگ بھگ نظم خواہ نثر کی سندھی کتابوں کے علاوہ ”نیل کنٹھ اور نیم کے پتے“ اور ”حلقہ مری زنجیر کا“ جیسی شہرہ آفاق اردُو کتابیں، کئی کتابوں کے اُردو تراجم اور شیخ ایاز کی جانب سے کیا گیا حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کے مُکمّل سندھی کلام کا منظوم اُردو ترجمہ، اُنہیں ادب کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رکھے گا اوراُن کی یہ سطریں ہر دور کے قلمکار کے لئے ہمیشہ بھرپور اور نڈر ہوکر لکھنے کے لئے ہمت افزاء رہیں گی:

میرے دیدہ ورو! میرے دانشورو!

پاؤ ں زخمی سہی، ڈگمگاتے چلو!

راہ میں سنگ و آہن کے ٹکراؤ سے

اپنی زنجیر کو جگمگاتے چلو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments