عادت یا عبادت


اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ بچوں کو شروع سے نماز کی عادت ڈالو ہمارے مذہب کی بھی یہی تعلیم ہےکہ سات سال میں اسے نماز سکھاکر ادا کرنے کی تلقین کرو اور جب دس سال کے ہو جائے تو سختی کے ساتھ عمل کرواؤ۔

لیکن کچھ ایسے والدین بھی ہیں بلکہ اکثر جو خود تو نماز کی پابندی کر رہے ہوتے ہیں پر بچوں کے لیے یہ بات کہتے نظر آ تے ہیں کہ جی ابھی چھوٹے ہیں بڑے ہوکر خود سمجھ آ جائے گی۔ کچھ کا مؤقف یہ بھی ہے کہ پہلے ان میں ادائیگی نماز کی اہمیت کا شعور پیدا کیا جائے جیسے ہم باقی چیزیں انھیں سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔

ہمارا یہ رویہ قطعاً غلط ہے

اس روپے کو اپنا کر ہم سراسر قرا ن و سنت کے احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں۔

کیا ہم دنیاوی تعلیم کے لیے یہ طریقہ کار اپناتے ہیں؟ نہیں 3 سال کی عمر میں بچے کو اسکول میں داخل کرا دیا جاتا ہے اور اب تو نیا فیشن پلے گروپ جہاں ڈھائی سال کے بچے کو اس لئے بھیجا جاتا ہے کہ اسکول کی عادت پڑ جائے گی سٹنگ مینرز آ جائیں گے وغیرہ۔

اسکول بھیجنے کے بعد بھی ہماری فکر ختم نہیں ہوتی روز ڈائری چیک کرنا، ہوم ورک کرانا، ٹیوشن کا انتظام کرنا، اساتذہ اور اسکول سے مسلسل رابطے میں رہنا یہ وہ عوامل ہیں جو ہم ایک اچھے اسکول میں داخلے کے بعد بھی بہت خوش دلی اور ذمہ داری سے انجام دیتے ہیں۔ یہیں پر بس نہیں ہوتا بلکہ جب اس کے ٹیسٹ رزلٹ یا امتحان کا رزلٹ آ تا ہے تو ہم اپنے بچوں کو اچھے نتائج کے لیے سرزنش بھی کرتے ہیں اور تنبیہہ بھی۔

یہ متضاد رویہ کیوں ہمیں چاہیے کہ بس انھیں پڑھائی کی اہمیت کا احساس دلائیں کہ یہ کتنی ضروری ہے ہمارا فرض تھا کہ ہم نے ایک اچھے اسکول میں داخلہ بھی کرا دیا اب کیوں ہم ایک جید مسلسل میں لگے ہوئے ہیں، کیوں ہم اس کے تابناک مستقبل کے لئے اس کو ہر تکلیف اور پریشانی سے بچانے کے لئے مستقل مدد کر رہے ہوتے ہیں کیا صرف اس لئے کہ یہ سب ہم دیکھ رہے ہیں اور یہ دنیاوی کامیابی کے لئے ضروری ہے

ہمارا یہ رویہ اور طریقہ کار درست ہے اگر یہ ان کی استعداد سے زیادہ نہیں اور ان کے لئے کسی بھی قسم کا ذہنی اور جسمانی دباؤ پیدا نہیں کر رہا دوسری طرف ہمیں ایسی ہی تربیت اور پرورش کی کوشش دینی معاملات کے لئے بھی کرنی چاہیے مگر یہاں ہم غفلت برت جاتے ہیں ایک مخصوص عمر اور شعور کا انتظار کرتے ہیں۔

آ پ نے دیکھا ہوگا کہ نرسری کلاسز میں oral section میں بچوں کو بہت سی دعائیں اور سورتیں یاد کرائی جاتی ہیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ بچے وہ بھول جاتے ہیں کیونکہ وہ ان کو پریکٹس نہیں کرتے۔

ہمارے بچوں کے لئے صرف یہ کافی نہیں کہ ہم انھیں نماز ادا کرتے نظر آئیں یا ہم ایک سرسری سی تلقین کرکے سمجھ لیں کہ ہمارا فرض ادا ہوگیا بلکہ اس کے لئے بھی ایک مکمل لائحہ عمل درکار ہے اس کے لئے کبھی ہم انھیں ڈانٹیں گے، تو کبھی ان کو تحائف کے لالچ دے کر نماز کی ادائیگی کا پابند بنائیں گے۔ اس طور سے وہ بڑھتی عمر کے ساتھ اس کے عادی بھی بن جائیں گے اور اس کی اہمیت و اجر سے واقفِ بھی۔

یاد رہے ہمارے بچوں کی دینی تربیت ہماری ذمہ داری ہے اس کا سوال ہم سے کیا جائے گا اسکول کے اساتذہ یا قاری صاحب نہیں۔

پچھلے دنوں ایک پوسٹ دیکھی جس میں ذکر تھا کہ ترکی میں ایک مقابلے کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ جو بچے باقاعدگی سے چالیس روز پانچ وقت نماز کی ادائیگی کریں گے ان کو بائیسکل انعام میں دی جاتی ہے۔ کتنا خوب صورت انداز ہے بچوں کی ترغیب کے لئے

ہمیں ایسے ہی انفرادی اور معاشرتی رویوں اور اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ نماز دین کا ستون اور مومن کی معراج ہے۔ بلاشبہ پابندی نماز کی برکت سے وہ تمام اخلاقی اوصاف بھی ان میں پیدا ہوجائیں گے جو ایک باشعور مسلمان والدین کی خواہش ہوتی ہے۔

اس تحریر کو پڑھنے کے بعد بتائیے گا کہ اور وہ کون سے عوامل ہیں جن پر آ پ نے عمل کیا یا کریں گے تا کہ ہمارے بچے ہمارے لئے صدقہ جاریہ ہوں۔

صائمہ خان، کراچی
Latest posts by صائمہ خان، کراچی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments