احساس کی موت!


تاریخ عالم اس بات پر گواہ ہے کہ یہ دنیا انسان کا مستقل ٹھکانہ کبھی بھی نہیں ہے۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی روز اس دنیا سے جانا ہوگا۔ یہ وہ حقیقت کبرای ہے جس سے دنیا کا کوئی بھی انسان انکار نہیں کر سکتا۔ مگر اس کے باوجود انسان اس حقیقت سے خود کو آگاہ نہیں کرتا اور وہ آخر دم تک اپنے خواہشات کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے۔

انسان کی زندگی اس امر کی مختاج ہے کہ وہ چند بنیادی قوانین کے پر قائم ہو۔ یہ قوانین یا تو مذہب وضع کرتا ہے یا عالم انسانیت اپنے لئے خود وضع کرتی ہے۔ ان بنیادی قوانین پر عمل درآمد کروانا حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ صرف اس لئے ہوتا ہے کہ انسان اپنے ہوا و ہوس کی وجہ سے انسانیت کے بنیادی اصولوں کو پامال کرنے سے رکا رہے۔

جب انسان ان قوانین سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اپنے نفسانی خواہشات کا اسیر بن جاتا ہے۔ یہ وہ اسارت کی زنجیریں ہیں جو انسان کو مقید کر دیتی ہیں اور اس کو ان کے اعلی مقام سے گرا کر اسفل السافلیں کے درجے پر لا کھڑا کر دیتی ہیں۔ اس کی نفس امارہ اتنی قوی ہو جاتی ہے کہ وہ انسانیت کا گلہ گھونٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ یہ اباحتی رویہ انسان کی زندگی کو سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ اور نہیں دیتا۔ اس صورتحال میں آدمی سے وہ افعال سرزد ہو جاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے پوری انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس کیفت کو احساس کی موت کہتے ہیں۔ یہ اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں احساس کا جنازہ نکل چکا ہو اس معاشرے میں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں کبھی بھی محفوظ نہیں رہتے۔

پاکستانی معاشرے میں چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور اس کے بعد قتل روز کا معمول بن چکا ہے۔ اس جرم میں روز بروز تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ویسے تو ہمارے سکول، مدارس، کالجز، یونیورسیٹیاں، گلی، کوچے، بازار اور مساجد تک بچوں کے لئے انتہائی غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ مگر مدارس اور مساجد سر فہرست ہیں۔

بچوں کے ساتھ ہونیوالے زیادتی کے واقعات اتنے ہیبتناک ہیں کہ کوئی بھی اہل دل اور ذی شعور انسان اس کو برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتا۔ مگر افسوس کہ پاکستان کا نظام عدل و انصاف خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔ ملک کے سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے فرست نہیں مل رہی ہے۔ پاکستانی میڈیا کو صرف سیاستدانوں کی فکر لاحق ہے۔

ملک کے مدرسوں اور مساجد میں ہونیوالے ان بھیانک واقعات پر کسی بڑے دینی مدرسے اور درسگاہ کو کوئی ملال نہیں ہوا۔ ملک کے کسی مذہبی جماعت نے اب تک توہین اسلام اور بے گناہ قتل کے جرم میں کسی بد کار قاری کے سر کو تن سے جدا کرنے کے لئے کوئی جلسہ اور جلوس نہیں نکالا۔ ملک کی سارے سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ان جرائم اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔

بحیثیت قوم ہم منافقت کی انتہا کو چھو رپے ہیں۔ ہمیں توہین رسالت (ص) اور توہین قرآن صرف غیر مسلموں کی نظر آ جاتی ہے۔ مگر ہم واقعات پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ کسی مدرسے یا مسجد میں کوئی قاری یا مولوی جب بچوں کے ساتھ زیادتی کرکے اس کو قتل کرتا ہے تو یہ کتنی بڑی توہین رسالت (ص) اور توہین قرآن ہے۔ یہ اس توہین سے کئی گنا زیادہ ہے جو کوئی غیر مسلم کرتا ہے۔ جب تک ہم ان قاریوں اور مولویوں کے جرائم پر پردہ ڈالتے رہیں گے ہمارے بچوں کے ساتھ اسی طرح زیادتیاں ہوتی رہیں گی۔

حکومت اور حکومتی اداروں کو چاہیے کہ ایسے تمام مدارس اور اس میں پڑھانے والے مولویوں کی خفیہ طور پر سخت نگرانی کریں۔ اس حوالے سے سخت قسم کے قوانین بنائیں۔ مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کی بھرتی کے لئے ایک ضابطہ اخلاق وضع کریں۔ والدین کے لئے آگاہی پروگرامات کی تشکیل کریں۔ جو سفاک عناصر بچوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کے گھناؤنے فعل میں مجرم پائے گئے ہیں ان کو ہر حال میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ اس قسم کے دردناک واقعات کی روک تھام ہوسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments