دنیا بچانی ہے، تو اب ہر شخص کو ”گریٹا“ بننا پڑے گا


اس سال مقبول امریکی جریدے ٹائم نے سویڈن کی سولہ سالہ ایکٹوسٹ گریٹا تھن برگ کو سال کی سب سے اہم شخصیت قرار دیا ہے۔ اگست 2018 ء کو سویڈن کی 16 سالہ طالبہ اس وقت ذرائع ابلاغ پر منظرعام پر آیئں جب سویڈن کی پارلیمنٹ کے باہر انہوں نے ایک انوکھا احتجاج شروع کیا۔ ماحولیاتی تبدیلی کے لئے فکرمند گریٹا ہر جمعے کو اسکول سے ناغہ کرتیں اور سویڈن کی پارلیمنٹ کے باہر گورنمنٹ کی توجہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی جانب دلاتیں۔

یوں دیکھتے ہی دیکھتے گریٹا کا سکول ہڑتال برائے ماحولیات کے نام سے یہ احتجاج جو سویڈن سے شروع ہوا وہ کئی دیگر ممالک میں بھی پھیل گیا۔ تحریک کو باقاعدہ نام ”فرائی ڈے فور فیوچر“ کا دیا گیا۔ جس میں طالب علم اس بات پر احتجاج کرتے ہیں کہ عالمی درجہ حرارت میں کمی کے لیے عالمی ممالک ”پیرس معاہدے“ پر عمل درآمد کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے سے کیوں قاصر ہیں۔

پیرس معاہدہ دراصل 2015 میں طہ پایا جانے والا پہلا عالمی معاہدہ تھا جس میں تمام ممالک نے کاربن کے اخراج میں کمی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 200 دستخط کنندہ ممالک کے درمیان اس معاہدے کے تحت ایک قانونی فریم ورک کے تحت عالمی درجہ حرارت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے کم کرنے کی کوشش کرنا تھا۔ پر اس معاہدہ کو اس وقت دھچکا لگا جب 2017 کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ پیرس میں ماحولیات سے متعلق طے پانے والا عالمی معاہدہ ختم کر رہا ہے۔ واشنگٹن کا معاہدہ ختم کرنے کی وجہ پیرس معاہدے میں شامل شرائط کی وجہ سے امریکہ پر اقتصادی بوجھ کا پڑنا تھا۔

جس پر گریٹا تھن برگ نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں عالمی ممالک کا ضمیر جھجھنوڑنے کے لئے ایک بھرپور جذباتی تقریر کی۔ اس مشہور زمانہ تقریر میں گریٹا تھرنبرگ نے عالمی رہنماؤں سے شکوہ کرتے ہوا کہا: ’آپ نے اپنے کھوکھلے وعدوں سے میرا بچپن اور میرے خواب چھین لیے۔ ‘ لوگ متاثر ہور ہے ہیں اور مر رہے ہیں، پورا ایکوسسٹم تباہی کے دھانے پر ہے۔ ’انسانی انہدام کا عمل شروع ہوچکا ہے اور آپ صرف پیسوں اور اقتصادی بڑھو تری کی کہانیاں سناتے ہیں۔ گریٹا تھن برگ کی اس تقریر کو نا صرف بھرپور پزیرائی ملی بلکہ بہت سے لوگ انھیں سراہا بھی کہ کس طرح انہوں نے عالمی رہنماؤں کو طنز کا نشانہ بنایا اور انھیں عالمی درجہ حرارت روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی تلقین کی۔

گریٹا تھنبرگ نے گزشتہ برس ’زیرو کاربن اخراج کرنے والی‘ کشتی میں بحرِ اوقیانوس عبور کیا۔ کیونکہ وہ کاربن خارج کرنے والے ہوائی جہاز سے سفر نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ انھوں نے تین ماہ تک امریکہ کے طول وعرض میں ماحولیات کے لیے مختلف مظاہروں میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ گریٹا نے یورپی یونین کے ارکان اور امریکی کانگریس کے ارکان سے ماحول کو تحفظ دینے کی ضرورت پر مباحثے کیے۔

پر افسوس صد افسوس آب و ہوا کی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی حالیہ سب سے طویل کانفرنس کچھ ہفتے پہلے میڈرڈ میں ختم ہو گئی جس میں شریک ممالک نے اگلے سال کاربن گیسوں کے اخراج میں مزید کمی کرنے کے وعدے تو کیے لیکن اہم شعبوں میں واضح فیصلوں کا اعلان ملتوی کر دیا۔ کانفرنس میں شریک ممالک میں کئی معاملات پر اختلافات دکھائی دیے۔ جس سے عالمی رہنماؤں کی سوچ واضح ہوئی کہ کس طرح یہ ممالک اپنے معاشی فوائد کو ماحولیاتی تباہ کاریوں پر فوقیت دے رہے ہیں۔

میڈرڈ کانفرس کے بے انجام اختتامیہ پر بھی گریٹا چپ نہیں بیٹھیں اور انہوں نے مزید اقدامات کے مطالبے کے لئے اسپین میں منعقدہ احتجاجی مظاہرے میں بھرپور شرکت کی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گریٹا کی کوشوں کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے آب و ہوا کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں ایک ایسی تحریک پیدا کی۔ جس کی وجہ سے نہ صرف یہ موضوع ایک مرکزی حیثیت حاصل کر گیا بلکہ نئی نسل کے نوجوانوں میں بھی ماحول کے بارے میں بیداری پیدا ہوئی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں سکول سٹرائک مہم نے دنیا کو اس سنجیدہ مسئلے پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

ایک طرف جہاں ایک سولہ سالہ طالب علم ماحولیاتی تبدیلی کے لیے فکرمند نئی نسل کی نمائندہ بن کر سامنے آئی ہیں، وہاں ہمارے زیرک عالمی رہنماؤں کی سوچ پر سوال اٹھتا ہے کہ وہ کیوں ماحولیاتی تغیرات کی تباہ کاریوں کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں۔ گریٹا نے اپنے ایک انٹرویو میں ذکر کیا کہ انھوں نے آٹھ برس کی عمر میں یہ بات سمجھ لی تھی کہ آب و ہوا میں تبدیلی انسانوں کی وجہ سے ہے۔ وہ اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ سیاستدان اس حقیقت کے باوجود اِس مسئلے پر بات کرنے میں ناکام ہیں جو پوری دنیا کی شکل ہی تبدیل کر سکتا ہے۔

اب ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ موسمی تغیرات اکیسویں صدی کا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ اب ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے مزید نظریں چرانا ایک سنگین غلطی ہوگی۔ محققین کی ریسریچز زمین کی سطح درجۂ حرارت کے ساتھ ساتھ دریاؤں اور سمندروں کی سطح میں اضافے کی تصدیق کر رہی ہیں اور اگر ٹھوس عملی اقدامات نا کیے گئے تو اس کا خمیازہ نا صرف اس نسل کو بھگتنا پڑے گا بلکہ تباہ کن اثرات اگلی نسل کے مقدر میں بھی لکھے ہوں گے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اجتماعی سطح پر متحرک ہو کر معاشرے کی سوچ میں تبدیلی لائیں۔ ایک ”گریٹا“ کے لئے یہ بوجھ بہت بوجھل ہے، دنیا بچانی ہے تو اب ہر شخص کو ”گریٹا“ بننا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments