کیا وزیرستان بھی کبھی واپس آجائے گا؟


\"aliٹانک سے وانا یا بنوں سے رزمک جاتے ہوئے وسیع و کشادہ شاہراہ پر ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا ہے کہ آپ وزیرستان میں سفر کر رہے ہیں جس کے بارے میں آپ کچھ اور ہی سنتے چلے آرہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کچھ لوگ گاڑیوں پر اسلحہ لاد کر ان پر سکون وادیوں میں گشت کیا کرتے تھے، لوگوں کی گردنیں کاٹتے تھے اور لوگوں کو سنگسار کیا کرتے تھے اور کوڑے مارا کرتے تھے مگر اب آپ کو یہ سب ایک قصہ لگ رہا ہے۔ لیکن جب سڑک پر آپ کی گاڑی یک دم رک جاتی ہے تو آپ حقیقی دنیا میں آجاتے ہیں کہ یہ وزیرستان ہے یہاں داخلہ صرف آگے کھڑے سیکورٹی فورسز کے جوانوں کی اجازت سے ہی ممکن ہے۔

وزیرستان کے لوگ کہتے ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہ چلا کہ کب پختون ولی کے تحت پناہ میں آنے والے مہمان اتنے مضبوط بھی ہوئے کہ میزبانوں پر اپنا حکم چلانے لگے۔ ان لوگوں کے حکم کو نہ ماننے والے میزبان پہلے رات کے اندھیرے میں اور بعد ازاں دن کے اجالے میں ہی مارے جانے لگے۔ یہ بےگناہ میزبان حکم عدولی کی سزا میں یا دوسروں کو سبق سکھانے کے لئے مار دیے جاتے تھے۔ ان کے احکامات زیادہ تر مالی تاوان اور پھر اپنے گھر سے کسی نوجوان کو ان کی ملیشا میں ہتھیار اٹھانے کے لئے وقف کرنے اور کسی کی نوجوان بچی کے کسی مہمان سے رشتے کے لئے ہوتے تھے، جو زیادہ تر مقامی لوگوں کے لئے قابل بجاآوری نہیں تھے۔ جب بات حد سے بڑھ گئی اور میزبان قبائل اپنے مہمان منظم گروہ کے سامنے بے بس ہوگئے تو جن کے بس میں تھا اور جو وسائل رکھتے تھے سب نے یہاں سے نقل مکانی کی اور ٹانک، بنوں، ڈیرہ اسمٰعیل خان، پشاور یا کراچی جہاں سینگ سمایا چل دیے۔ جن کے وسائل رضاکارانہ نقل مکانی کی اجازت نہیں دیتے تھے وہ یہاں بسنے والے جنگوؤں کے خلاف حکومتی کارروائی کے دوران علاقے سے نکل گئے۔

اب اس نقل مکانی کو نو سال گزر گئے ہیں۔ اس دوران کئی لوگ مر گئے اور  کئی پردیس میں ہی پیوند خاک ہوئے، جن نوجوانوں کی شادیاں نہیں ہوئی تھیں اب بچوں والے ہیں، نقل مکانی کے وقت جو چھوٹے بچے والدین کے گود میں تھے اب جوان ہوگئے ہیں اور اور خود مختار ہیں۔ کچھ نے اپنے آبائی وطن کو دیکھا تک نہیں ہے تو کسی کو یاد ہی نہیں رہا، کسی کو یاد بھی ہے تو ذبح ہوتی گردنیں، کوڑے کھاتی پیٹھیں اور فٹ بال بنتے سر جس کو وہ دوبارہ دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔

جب لوگ بے سر و سامانی میں یہاں سے نکلے تو اپنے مال مویشی کو کھلے چھوڑ آئے تھے جو یا تو چوری ہوگئے یا درندے کھا گئے، یا پھر بیمار ہو کر مرگئے۔ جو بچ گئے ہیں وہ اب جنگلی ہوگئے ہیں جس کا صرف شکار ہی کیا جا سکتا ہے۔ کھیت کھلیان سوکھ گئے، پودے اور درخت بھی مرگئے۔ گھروں کو فوجی آپریشن کے دوران نقصان پہنچا اور استعمال کے قابل نہیں رہے۔ ایک درخت کو لگانے سے پھل دینے تک کئی سال لگتے ہیں یہاں تو کئی نسلوں سے لگے درخت جو پھل دیتے تھے چھاؤں اور لکڑی مہیا کرتے تھے سب سوکھ گئے ہیں۔ ان کے باغ اور کھیت جلدی تیار ہونے والے نہیں ہیں۔ اب اگر وہ واپس آ بھی گئے تو گزارہ کیسے ہو؟

لوگ یہاں سے نکلے تو اپنا ہتھیار انھوں نے چھوڑ دیا جو آپریشن کے دوران ضبط ہو گیا۔ جو زمین کے اندر مدفن چھپایا گیا تھا اب زنگ آلود ہو کر استعمال کے قابل نہیں رہا۔ ہتھیار چھن گیا ہے لیکن دشمنی تو موجود ہے۔ خوف یہ ہے کہ اگر بغیر ہتھیار کے وہ یہاں رہنے لگے تو اپنے دشمن کا آسانی سے نشانہ بن سکتے ہیں کیونکہ بقول قبائلیوں کے دشمنی سو سال گرزنے کے بعد بھی جوان رہتی ہے۔ قبائلی زندگی کا قبیلے کے بغیر تصور ہی نہیں ہے۔ ہجرت کرنے والوں کے رشتے دار بکھر گئے ہیں اور اب سب کا اتفاق نہیں ہو پاتا ہے کہ واپس جائیں یا پھر پردیس میں ہی رہیں۔ اگر قبیلے کے چند لوگ واپس آگئے اور مخالف قبیلے سے مڈ بھیڑ ہوگئی تو مشکل پیش آسکتی ہے۔ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ فی الحال تو فوج موجود ہے آپریشن چل رہا ہے اس لئے خاموشی ہے لیکن جیسے ہی آپریشن رک گیا اور فوج واپس چلی گئی تو حالات پھر سے خراب ہو سکتے ہیں اور لوگ دشمنیوں اور انتقام پر اتر سکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھ کر لوگ واپس آنے میں ہچکچا رہے ہیں۔

بنوں اور ڈیرہ اسمٰعیل خان جیسے شہروں میں جہاں جنوبی اور شمالی وزیرستان کے لوگ نقل مکانی کرکے آگئے ہیں مکانوں اور جائدادوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ اب ان شہروں میں نقل مکانی کرکے آنے والے موٹر سایئکل رکشہ عرف چنگچی سے لے کر بڑے بڑے کاروبار چلا رہے ہیں۔ ان شہروں سے افغان مہاجرین کی بے دخلی شروع ہو چکی ہے جن کی جائیدادیں اور کاروبار وزیرستان سے آنے والے نئے مہاجرین خرید رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ وزیرستان کے قبائلی ایک شہری زندگی کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں لوگ کہتے ہیں کہ وزیرستان کے لوگ ان کی نسبت زیادہ جفاکش اور محنتی ہیں اس لئے زیادہ کما لیتے ہیں اور اچھی زندگی گزار لیتے ہیں۔

ادھر جنوبی اور شمالی وزیرستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے وال چاکنگ کی گئی ہے۔ جگہ جگہ بچوں کی طرف سے بستہ کتاب اور قلم کی فرمائش کی گئی ہے۔ کیڈٹ کالج بھی تعمیر کئے گئے ہیں جہاں تعلیم بالکل مفت دی جائے گی۔ کچھ جگہوں پر بچوں کو بستہ اٹھائے سکول جاتے بھی دیکھا جا سکتا ہے مگر تعداد زیادہ نہیں ہے۔ فوج نے جگہ جگہ فٹ بال گراؤنڈ، اسٹیڈیم اور مارکیٹیں تو تعمیر کی ہیں لیکن ان مارکیٹوں میں نہ زیادہ دوکاندار ہیں نہ گاہک، فٹ بال گراؤنڈ اور اسٹیڈیم بھی کھلاڑیوں اور شائقین سے خالی ہیں۔ نئی بنی ہوئی چوڑی سڑکوں پر جگہ جگہ سیکیورٹی کی چیک پوسٹوں پر گاڑیوں کو روک کر لوگوں کا اندراج کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو داخلے کا اجازت نامہ مل جاتا ہے تو اپنے گھر جا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔

ہجرت کرنے والے جب نکل کر شہروں میں آئے تو پتہ چلا کہ یہاں کی دنیا مختلف ہے، یہاں کام کم آرام زیادہ ہے، یہاں بچے بیمار ہو کر مرتے نہیں بلکہ ان کا علاج بھی ہوتا ہے۔ یہاں کھانے پینے اور پہننے کی فراوانی ہے۔ بچے درانتی، کلہاڑی اور بیلچہ کے علاوہ قلم، کتاب، اور کھلونوں سے بھی کھیلتے ہیں۔ ان کی خواتین جو گاؤں میں گھر کی چار دیواری کے اندر مقید تھیں اب آہستہ آہستہ مارکیٹوں میں جانے لگیں، گھر میں ٹی وی آگیا، فلموں اور ڈراموں کا فیشن پہناوا بن گیا۔ صبح سے شام تک کھیتی باڑی، مال مویشی، بچوں کے پرورش اور گھر داری سے جان چھٹی اب سارا دن آرام سے گزرنے لگا۔ بچے سکول جانے لگے ہیں اور جوان شہروں میں کاروبار اور مزدوریاں کرنے لگے ہیں۔ اب واپس جاکر پھر سے اسی زندگی کا اپنانا بڑا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جارہا ہے۔

وزیرستان کے لوگ واپس آ بھی گئے تو کیا وزیرستان بھی کبھی اپنی اصلی حالت میں واپس آجائے گا؟ کیا آنے والے اپنی روزی کمائی اپنے مال مویشی اور کھیتی باڑی سے ہی دوبارہ شروع کریں گے یا ذرائع آمدن اب بدل جائیں گے۔ آنے والے بغیر بندوق کے رہنے کے تو عادی ہیں لیکن موبائل فون کے بغیر وہ نہیں رہ سکتے۔ کیا وزیرستان میں دوبارہ آنے والی تعلیم یافتہ نسل کے لوگ پھر قبائلی زندگی کو ہی ترجیح دیں گے جس کے باعث وہ دربدر ہوگئے یا بدلتی دنیا کے نئے اطوار اپنائیں گے۔ میرا خیال یہ ہے کہ وزیرستان میں اب سب کچھ بدل گیا ہے کیونکہ آنے والے لوگ نو سال بعد بدل چکے ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments