بکرا منڈی کی فوجی عدالت اور پولیٹیکل سائنس کا پروفیسر


حامد میر کا نیا کالم ” 2029 کا پاکستان ” نظر سے گزرا۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ اچھی سوچ والے پاکستان بدل دیں گے۔ اس سے ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا۔ گورڈن کالج میں پولٹیکل سائینس کے استاد بھٹی صاحب( پورا نام یاد نہیں) نے ایک دن اپنے لیکچر کے دوران ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ وہ بتانے لگے کہ جنرل ضیاء کا مارشل لاء نیا نیا لگا تھا۔ بھٹی صاحب اس وقت گورڈن کالج میں نئے نئے لیکچرار لگے تھے۔ پولیٹیکل سائینس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ایک بزرگ استاد تھے۔ انہوں نے انہی دنوں اخبارات میں ایک مضمون” قانون کی حاکمیت” کے عنوان سے لکھا۔ ان دنوں مارشل لاء حکومت کی سرسری سماعت کی فوجی عدالتیں قائم تھیں۔ جن میں سرسری سماعت کے بعد سزا سنادی جاتی جس میں کوڑوں کی سزا بھی شامل ہوتی تھی۔

ان پروفیسر صاحب کو بکرا منڈی کی سرسری سماعت کی ایک فوجی عدالت سے پیشی کا حکم نامہ موصول ہوا۔ وہ بزرگ گھبرا گئے اور اپنے ایک سنیئر وکیل سے مشورہ طلب کیا۔ وکیل دوست نے انہیں حوصلہ دیا کہ فکر کی بات نہیں،میں آپ کے ساتھ پیشی پہ جائوں گا اور آپ کے خلاف الزامات کی صفائی پیش کروں گا۔

بھٹی صاحب نے سنایا کہ پیشی کے دن پروفیسر صاحب نے مجھے بھی اپنے ساتھ لیا اور اپنے وکیل دوست کے دفتر پہنچ گئے۔ ان کے دوست بزرگ وکیل متعدد کتابوں کے ساتھ دفتر سے نکلے اور کتابوں کا بوجھ بھٹی صاحب کی بانہوں میں تھما دیا۔ بھٹی صاحب بتا رہے تھے کہ ہم بکر ا منڈی علاقے میں مقررہ جگہ پہنچے تو وہاں ایک کچے سے کمرے کے باہر ایک نوجوان کپتان ایک چھوٹی سے لکڑی کی میز سامنے رکھے کرسی پر بیٹھا ہواتھا۔ قریب ہی کوڑے لگائے جانے والی ٹکٹکی بھی سامان عبرت فراہم کر رہی تھی۔

ان کو آتا دیکھ کر نوجوان کپتان کمرے کے اندر چلا گیا۔ کالی پینٹ کوٹ میں ملبوس بزرگ وکیل صاحب بڑے اعتماد سے کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے پیچھے پروفیسر صاحب اور ہاتھوں میں قانون کی پانچ ،چھ کتابیں تھامے بھٹی صاحب بھی کمرے میں داخل ہو گئے۔ وکیل صاحب نے پیشی کا حکم نامہ کپتان صاحب کی میز پہ رکھ دیا ۔ کپتان نے پوچھا،ہاں کیا بات ہے۔ وکیل صاحب نے پروفیسر صاحب کی صفائی میں بات کرنا شروع کی۔ ساتھ قانون کے حوالے بھی دیتے جاتے۔ قانون کے حوالے دیتے ہوئے وکیل صاحب بھٹی صاحب کے ہاتھ میں تھامی کتاب لے لیتے اور نشان زدہ صفحات کھول کر کپتان صاحب کی میز پر رکھ دیتے۔

تقریبا آدھ گھنٹہ وکیل صاحب دلائل دیتے رہے۔ ان کی زبردست وکالت دیکھ کر پروفیسر صاحب کی جان میں جان آئی اور ان کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔ وکیل صاحب کے اشارے پہ بھٹی صاحب نے قانون کی کتابیں میز سے اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں اٹھا لی۔ وکیل صاحب خاموش ہوئے تو کپتان صاحب نے پوچھا ،کچھ اور کہنا ہے یا بس؟ وکیل صاحب نے جواب دیا میں نے اپنی بات مکمل کر لی ہے۔ اس پر نوجوان کپتان نے حکم دیا کہ اس کونے میں جائو اور مرغا بن جائو۔ سنیئروکیل صاحب تلملائے اور اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دھاڑنے لگے۔

نوجوان کپتان نے فورا آواز لگائی تو ایک فوجی جوان رائفل تھامے کمرے کے اندر آگیا اور رائفل کا رخ ان کی طرف کر کے رائفل کو کاک کر لیا۔ بھٹی صاحب سناتے تھے کہ رائفل کا کاک کرنا تھا کہ وکیل صاحب اور پروفیسر صاحب نے یکدم نیچے جھک کر، دونوں بازو اپنی ٹانگوں سے گھما کر، اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنے کان پکڑ لئے۔ بھٹی صاحب نے بتایا کہ خوف اور دہشت کا ایسا عالم تھا کہ میں نے قانون کی کتابیں اپنے ہاتھوں سے نیچے زمین پر پھینک دیں اور میں بھی مرغا بن گیا۔ حالانکہ کپتان صاحب نے مجھے مرغا بننے کو نہیں کہا تھا۔

جب شعور اور دلیل کی طاقت بہت بڑھ جاتی ہے تو طاقت اسے لمحوں میں مرغا بننے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں اصلاح نہیں ہو گی، بہتری نہیں آئے گی ۔ اصلاح ہو گی، برابر ہو گی اور ضرور ہو گی لیکن شعور اور دلیل کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے سے ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments