عمران خان کے نوٹ والے دوست اور ووٹ والے کارکن


وزیر اعظم عمران خان نے چند روز قبل کراچی میں دوستوں کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران ان کو خوش خبری سنائی ہے کہ انسداد بدعنوانی قانون میں قانون سازی نہیں بلکہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کر دی گئی ہے، اگر چہ یہ خوشی عارضی بھی ثابت ہو سکتی ہے اس لئے کہ صدارتی آرڈیننس کی مدت آئین کے مطابق نوے روز ہوتی ہے اگر پارلیمان اس کی منظوری نہ دے۔ حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے حکومتی آرڈیننس کو مسترد کردیا ہے۔

ان کا موقف ہے کہ نیب قوانین میں سقم ہیں، جس کا خاتمہ ضروری ہے لیکن اس کا حل عارضی نہیں بلکہ مستقل طور پر ہونا چاہیے۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے انسداد بد عنوانی قوانین میں ترمیم مستقل حل نہیں ہے۔ حزب اختلاف کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ اگر اس قانون میں موجود خامیوں کو دور کرنا ہے تو مستقل طور پر اس کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ مستقل قانون سازی کے لئے ضروری ہے کہ حکومت، حزب اختلاف کو اعتماد میں لے۔ باہمی مشاورت سے موجودہ قوانین میں موجود خامیوں کا جائزہ لیں اور اس میں اتفاق رائے سے ترامیم کا مسودہ تیار کریں، پارلیمان میں اس پر بحث ہو اور پھر آئینی طریقہ کار کے مطابق ترمیم کر لیں، لیکن صدارتی آرڈیننس کے اجرا ء سے لگ رہا ہے کہ وفاقی حکومت کسی بھی اہم قانون سازی کے لئے حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت کے لئے تیار نہیں۔

بہر کیف انسداد بدعنوانی کے قانون میں مستقل ترمیم اور دوستوں کو نیب سے بچانے کے لئے واحد راستہ یہی ہے کہ حزب اختلاف کے ساتھ مشاورت ہو۔ متفقہ طور پر ترامیم پر اتفاق ہو اور پھر پارلیمان سے منظوری لی جائے۔ نیب قوانین میں ترامیم حکومت کے لئے آسان اس لئے ہے کہ حزب اختلاف کے رہنمابھی اس سے نالاں ہیں۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے کہ جو حکومت اور حزب اختلاف کے مشترکہ دوست ہیں، اس لئے حکومت کے ساتھ ساتھ حز ب اختلاف کی بھی کوشش ہے کہ دوستوں کو نیب سے بچایا جائے۔ بیوروکریسی میں بھی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو حکومت اور حزب اختلاف دونوں سے اچھے مراسم رکھتے ہیں اس لئے یہاں بھی حکومت کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

وزیر اعظم عمران خان نے دوستوں کو نیب سے بچانے کے لئے صدارتی آرڈیننس جاری کردیا ہے، اچھی بات ہے۔ اس لئے کہ کہاوت مشہور ہے کہ ”دوست وہ جو مصیبت میں کا م آئے“ انتخابی مہم کے دوران عمران خان مشکل میں تھے۔ دوستوں نے ہی انتخابی مہم میں دامے، درمے اور سخنے ان کا ساتھ دیا، اب دوستی کا تقاضا تھا کہ اس مشکل وقت میں دوستوں کا ساتھ دیا جائے لہذا انھوں نے احسان کا بدلہ احسان سے دے دیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس احسان سے سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ یاروں کے یار ہیں، لیکن کبھی بھی انھوں نے خود اس کا تذکرہ سرعام نہیں کیا، جس طرح وزیر اعظم عمران خان نے کراچی میں دوستوں سے خطاب کے دوران اس کا تذکرہ کیا۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شر یف کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ عہدے بانٹنے اور دوستوں کو نوازنے میں کسی سے کم نہیں لیکن انھوں نے بھی کبھی اس کا تذکرہ بھری محفل میں کیمروں کے سامنے نہیں کیا ہے۔ اس لئے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو وزیر اعظم عمران خان سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر کسی دوست کے ساتھ احسان کرنا ہو تو اسے خفیہ رکھنے کی بجائے اس کا اظہار بھی کرنا چاہیے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام بھی آئے۔

گزشتہ انتخابی مہم کے دوران جس طرح دوستوں نے مالی معاونت کرکے عمران خان کو وزیر اعظم بنانے میں کردار ادا کیا اسی طرح عوام نے بھی ووٹ دے کر ان کو منتخب کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ جس طرح دوستوں کو نیب سے بچانے کے لئے فوری طور پر عارضی بندوبست کیا گیا اسی طرح ضروری ہے کہ وزیر اعظم عمران خان عوام کو بھی واپڈاگردی سے بچانے کے لئے فوری اور عارضی انتظام کرلیں۔ گزشتہ چند مہینوں سے واپڈا فیول پرائس ایڈجسمنٹ کے نام سے عوام کو لوٹ رہی ہے۔

اربوں روپوں کا بوجھ ماہانہ غریب عوام پر ڈالا جارہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ امیر دوستوں کی طرح غریب ووٹرز کے ساتھ بھی حسن سلوک کا معاملہ کریں۔ اسی طرح گز شتہ پندرہ مہینوں میں گیس کی قیمتوں میں دوسوپچاس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ جس سے غریب ووٹرز ہی متا ثر ہوئے ہیں وہ بھی وزیر اعظم عمران خان کے احسان کا انتظار کر رہے ہیں۔ مہنگائی نے گز شتہ چند مہینوں سے جس طرح پنجے گاڑے ہیں اس سے لگ رہا ہے کہ عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔

بے روزگاری نے ایک سال کے عرصے میں لاکھوں لوگوں کو ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اعلی تعلیم کے دروازے غریبوں کے لئے بند کیے جارہے ہیں اس لئے کہ سرکاری جامعات کو فنڈز نہیں دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے وہ فیسیں بڑھانے پر مجبور ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہو ئے فیسوں سے کثیر تعداد میں طالب علم اعلیٰ تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان دوستوں کو نوازنے میں چونکہ بڑے دریا دل ہیں اس لئے ان کو چاہیے کہ اس معاملے میں امیر اور غریب کی قید کو بھی ختم کردیں۔

امیر نے اگر انتخابات کے دنوں میں مالی مدد کرنی ہے تو غریب کے پاس ووٹ کی پر چی ہے۔ لیکن معلوم ایسے ہورہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو ان کے امیر رفقائے خاص نے قائل کر دیا ہے کہ ووٹ کی پرچی سے زیادہ اہم نوٹ ہو تے ہیں، اس لئے وہ نوٹ والوں کو بچانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں لیکن ووٹ والوں کو صرف تسلیاں دے رہے ہیں۔

سابق صدر پر ویز مشرف کے ارد گر د بھی نوٹوں والے جمع تھے۔ ان کو بھی یقین دلایا گیا تھا کہ ووٹ والوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ نوٹ والوں سے بنا کر رکھنی ہے، اس لئے کہ ووٹ والوں کو نوٹوں سے خریدا بھی جا سکتا ہے۔ مگر پھر پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ سب نوٹ والوں نے پرویز مشرف کو چھوڑ دیا اور ان کی جگہ ووٹ لینے والے آ گئے۔ اس لئے ضروری ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نوٹ والے دوستوں کو مختلف اداروں سے بچانے کے ساتھ ساتھ ووٹ والے عوام کو بھی آسانیاں دینے کے لئے عملی اقدامات کریں، اس لئے کہ جن امیروں کو نیب سے بچایا گیا ہے ان کی تعداد ہزاروں میں ہے اور جن غریب عوام کومشکل کے اس وقت میں اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے ان کی تعداد کروڑوں میں ہے، اور پھر تاریخ شاہد ہے کہ یہی ہزاروں آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، چوہدری شجاعت حسین اور پرویز مشرف کو ان کروڑوں کے غیظ و غضب سے نہیں بچا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments