مکالمہ کا کلچر آگے بڑھانا ہوگا


پاکستانی قوم کا ایک بڑا مسئلہ مکالمہ کے کلچر کا فقدان ہے۔ اگرچہ یہ تسلیم کیا جاتاہے کہ ہمیں بند دروازوں کی بجائے کھلے دروازوں یا ذہن کے ساتھ مکالمہ کے کلچر کو فروغ دینا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس ملک میں مکالمہ کا کلچر کمزور ہورہا ہے اور سب ہی فریقین انفرادی یا اجتماعی سطح پر مکالمہ کی بجائے اپنے خیالات، سوچ اور فکر سمیت اظہار میں تنگ نظری پیدا کرکے مکالمہ کے کلچر کو بند کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہم مکالمہ کرنا نہیں چاہتے، مگر مکالمہ ایسا چاہتے ہیں جو ان کی مرضی او رمنشا کے مطابق ہو یا لوگ ان کی سوچ او رخیالات کو چیلنج نہ کریں تاکہ وہ اپنی بات دوسروں پر مسلط کرسکیں۔ حالانکہ مکالمہ ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے او راس میں ضروری نہیں کہ دونوں فریقین کے خیالات ایک جیسے ہوں۔ مکالمہ کی ایک بنیاد نہ صرف دو طرفہ ہوتی ہے بلکہ یہ مختلف خیال اور فکر کے لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔

مکالمہ کا مقصد اپنی بات دوسروں پر مسلط کرنا یا ایسا جذباتی انداز اختیار کرنا جو ایک دوسرے کے جذبات میں انتہا پسندی یا شدت پسندی کو پیدا کرے وہ مکالمہ کے کلچر کا دروازہ بند کرتا ہے۔ مکالمہ میں ایک دوسرے کے ساتھ اپنا نکتہ نظر یا سوچ و فکر کا تبادلہ خیال ہوتا ہے اورایک فکر کے مقابلے میں ایک متبادل فکر کو سامنے لانا ہوتا ہے۔ لیکن اول تو یہاں مکالمہ کا کلچر بہت پیچھے چلا گیا ہے او ریہ ہی وجہ ہے کہ لوگ آپس میں مکالمہ پیدا کرنے کی بجائے فاصلہ رکھتے ہیں یا الجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو مکالمہ ہو بھی رہا ہے وہ مکالمہ کم اور لوگوں کو تقسیم کرنے کا زیادہ سبب پیدا کرتا ہے۔ ایک دوسرے کے خیالات، سوچ، فکر یا اظہار کو قبول نہ کرنا آپ کا بنیادی حق ہے مگر یہ ہی حق ہمیں دوسروں کو دینے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔

یہ سمجھنا ہوگا کہ محض آپ کا سچ مکمل سچ نہیں بلکہ ہمیں دوسروں کے بولے، کہے یا لکھے ہوئے لفظوں میں بھی سچ تلاش کرنا چاہیے۔ مکالمہ کا یہ انداز بنیادی طور پر آپ کو ایک مہذہب اور ذمہ دار شہری سمیت معاشرے کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ نئی سوچ، فکر اور دلیل عمومی طور پر اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم مکالمہ کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو بھی معاشرہ مکالمہ کی فکر کو بنیاد بنا کر اپنا راستہ تلاش کرتا ہے وہی اپنے مسائل کا حل بھی سیاسی او رجمہوری انداز میں ڈھونڈتا ہے۔ کیونکہ متبادل سوچ او رفکر کی بنیاد ہی مکالمہ سے جڑی ہوتی ہے او ر یہ ہی قومی بنیاد بھی ہونی چاہیے۔ سیاسی، سماجی اورمذہبی تنگ نظری یا خیالات میں خود کو بڑا سمجھ کر دوسروں کو چھوٹا سمجھنے کی روش کا خاتمہ کے لیے ہمیں ایک بڑا واضح ایجنڈا یا حکمت عملی سمیت نیا بیانیہ درکار ہے۔

مکالمہ کے فقدان کی وجہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی سیاسی، سماجی، لسانی، علاقائی او رمذہبی تقسیم ہے۔ اس تقسیم نے لوگوں میں یہ سوچ اور فکر بٹھا دی ہے کہ ہمیں مکالمہ یا نیا علم سیکھنے کی بجائے اسی انداز کو اختیار کرنا ہے جو ان کو دی جارہی ہے۔ اپنی سوچ، عقل، فہم اور تدبر پر پابندی عائد کرنا او رجو ان کے دماغوں میں ٹھونسا جارہا ہے اس پر اندھی تقلید کرنا بڑا المیہ ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں، میڈیا، اہل دانش، استاد، شاعر ادیب، لکھاری سب ہی ایک جگہ پر جمود کا شکار ہیں۔

یہ بات سمجھنی ہوگی کہ پہلے سے موجود طاقت کے مراکز جن کا اس نظام میں براہ راست فائدہ ہے وہ کبھی بھی مکالمہ کا کلچر پیدا کرنے کی حمایت نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ سوالات کا ابھرنا، اٹھانا یا کسی بھی حوالے سے موجود طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنا ان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمار ے علمی و فکری مذاکر ے تقریروں سے بھرپور ہوتے ہیں اور اس میں سوالا ت اٹھانے کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ یہ ہی طرز عمل ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں بھی بالادست نظر آتا ہے جہاں استاد او رشاگرد کے درمیان مکالمہ کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے۔

مکالمہ کے کلچر سے لوگوں میں ایک ڈر اور خوف بھی پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم جب بھی علمی و فکری بنیاد پر روایتی سوچ او رفکر کو چیلنج کریں گے تو ان کو نہ صرف مکالمہ کرنے والے سے بلکہ ریاستی، حکومتی و ادارہ جاتی نظام سے بھی ڈر لگتا ہے جو کسی نہ کسی بات کو بنیاد بنا کر ان کو کسی بڑی مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ اسی طرح بعض واقعات مکالمہ کرنے کی بنیاد پر انتہا پسندی او رشدت یا تشدد میں تبدیل ہوئے ہیں جو لوگوں کو مکالمہ سے اور زیادہ دور لے جانے کا سبب بنتے ہیں۔

اس بحران کی ایک وجہ ہمارا تعلیمی و فکری نظام ہے جو لوگوں میں سوالات کو پیدا کرنے یا کسی نکتہ نظر کو چیلنج کرنے یا متبادل سوچ کو پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے گھروں کے نظام میں لوگوں کو بڑے رشتوں کے سامنے سر جھکانے کی تربیت دی جاتی ہے او رچیلنج کرنے والوں کو کسی بھی طور پر پسند نہیں کیاجاتا یا ان کی پزیرائی کرنے کی بجائے ان کی کھل کر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مکالمہ کا کلچر کسی سیاسی تنہائی میں ممکن ہے تو یقینی طو رپر اس کا جوا ب نفی میں ہوگا۔ بنیادی طور پر ہمیں واضح طور پر اپنے معاشرے کی فکر کو نئے خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ صورتحال میں ہمیں نئی فکر کو اختیار کرنا ہماری قومی ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ لیکن یہ کام کسی ایک فریق نے نہیں کرنا اس میں تمام فریقین کو اپنا اپنا حصہ یا ذمہ داری کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

اس میں تعلیمی نظام، گھر سے جڑا تربیت کا ماحول، میڈیا کا کردار، نصاب میں تبدیلیوں کا عمل، سیاسی قیادت اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اس عمل میں بطور قیادت کے طور پر سامنے آنا، اہل دانش، شاعر، ادیب، لکھاری، فلمیں، ڈرامہ نگار، استاد، فن کار سب ہی کو اپنا حصہ ڈال کر ایک نئی سوچ او رفکر کو مضبوط و مربوط بنانا ہے جو لوگوں میں مکالمہ اور رواداری کے کلچر کو تقویت دے۔

ایک بات سمجھنی ہوگی کے مکالمہ کا مقصد کسی کی سوچ یا فکر کی دل آزاری کرنا نہیں ہوتا یا ہونا چاہیے۔ مکالمہ بنیادی طو رپر ایک صحت مند وامن پسندی پر معاشرے کی تشکیل نو میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی اپنی سوچ اور فکر کے دائرہ کار سے باہر نکل کر دوسروں کے خیالات اور فکر کو سن کر احترام کا رشتہ قائم کرنا ہوگا۔ متبادل سوچ اور فکر سے کسی کے نظریے سوچ او رفکر کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا او رنہ ہی ہونا چاہیے۔

ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ جب تک معاشرے میں سوچنے، پڑھنے او رلکھنے والے لوگوں یا متبادل بیانیہ پیش کرنے والوں کو اپنی فکری عمل میں آزادی نہیں دی جائے گی ہم ایک پہلے سے موجود خول سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ فکری آزاری عمومی طور پر پہلے سے موجود بند دروازوں کو کھولنے کا سبب بنتی ہے او ریہ ہی معاشرے کی فکری ترقی سے جڑا ہوا عمل ہے۔

مکالمہ کو عام کرنا ایک سماجی، علمی و فکری تحریک سے جڑا ہوا عمل ہے او ریہ کام عملی طور پر رائے عامہ بنانے والوں کے درمیان ہونا چاہیے کہ وہ اس کام کی قیادت میں پیش پیش ہوں۔ اسی طرح مکالمہ کا انداز و فکر کو بھی نئی سوچ کی ضرورت ہے اور سمجھنا ہوگا کہ مکالمہ کیسے کیا جاتا ہے اور اس کا کیا انداز ہونا چاہیے۔ اس کام میں ہمیں بنیادی طور پر نوجوان نسل او رخاص طو رپر تعلیمی نظام میں ایک بڑی سرجری کرنا ہوگی او رمیڈیا میں مکالمہ کی بجائے اپنی بات کو چاروں طرف سے مسلط کرنے کا جو کھیل عروج پر ہے اس کا متبادل پیش کرنا ہوگا۔ اس تحریک میں اگر تعلیمی ادارے خود کو ایک متبادل بیانیہ کے طور پرپیش کریں او راپنے تعلیمی نظام میں مکالمہ کو بنیاد بنا کر نئے طور طریقے اختیار کریں تو یہ ہی معاشرے کی بڑی خدمت ہوگی۔

مکالمہ میں موجود رکاوٹوں میں ایک بڑی وجہ مطالعہ کی کمی ہے۔ مطالعہ کی عادت مکالمہ کو جنم دیتی ہے او رلوگوں کو سوالات پر اکساتی ہے اور یہ عمل ضروری ہے کہ بچوں او ربچیوں میں نہ صرف مطالعہ کی عادت پیدا کریں بلکہ اپنے مخالف سوچ اور فکر کا مطالعہ بھی ضروری ہے او ریہ ہی عمل مطالعہ سمیت کردار سازی کو بھی مضبوط بناتا ہے۔ ہمیں سوچ اور فکر کی جنگ میں اختلافات کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھنا ہوگا او ریہ ہی ہماری علمی و فکری ترقی کا پیمانہ ہوسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments