تین سو پینسٹھ دن!


گزرے ایک سال میں بہت کچھ تھا۔ امید سے ناامیدی کا سفر، معاشی زبوں حالی کی داستان، زوال پزیر ہوتی معیشت، پکڑو بچاؤ کی صدائیں، سول ملٹری تعلقات کا ایک صفحہ، پچھلی حکومتوں کا حساب کتاب، بدعنوانی پر شائع ہوتے مجلے، اندر باہر آتے جاتے سیاستدان، بند پڑی پارلیمان۔۔۔

ایک سورج ڈوب رہا ہے جبکہ دوسرا سورج اُبھرنے کو تیار۔ لمحوں کا سفر آہستہ آہستہ جاری ہے۔ وقت اگلی دہائی کے دروازے پر دھیرے دھیرے دستک دے رہا ہے۔ سیکنڈز، منٹ اور گھنٹے سرک رہے ہیں۔ گھڑیاں صبح نو کے لیے مضطرب جبکہ دنیا بے چینی سے کیلنڈر بدلنے کی منتظر ہے۔

کیا اس انتظار میں ہم وہ لمحے شمار کریں گے جو ملال سے پُر تھے اور جواب کے متلاشی؟ کیا کھویا کیا پایا کی اس تکرار میں گزرے ایک سال کے تاریک لمحوں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والا کل گزرے کل کی چاپ سے باہر نکلے۔

ایک سال میں ہم نے کئی اقدار کھوئیں، سوال کھوئے، خواب کھوئے، راہ کھوئی، نشان کھوئے، سوچ کے سامان کھوئے مگر قافلے کو چلنا تھا سو وہ چلتا رہے گا۔

گزرے ایک سال میں بہت کچھ تھا۔ امید سے ناامیدی کا سفر، معاشی زبوں حالی کی داستان، زوال پزیر ہوتی معیشت، پکڑو بچاؤ کی صدائیں، سول ملٹری تعلقات کا ایک صفحہ، پچھلی حکومتوں کا حساب کتاب، بدعنوانی پر شائع ہوتے مجلے، اندر باہر آتے جاتے سیاستدان، بند پڑی پارلیمان، اوپر نیچے ہوتی اسٹاک مارکیٹ کی دکان، بیمار رہنما اور ضمانتیں، این آر او دینے اور نہ دینے کی صدائیں، مولانا کا دھرنا اور کلائمیکس پر اُلٹے پیر پھرنا۔

جنّوں، ہم زادوں اور پریوں کی داستانیں، آرمی چیف کی توسیع پر غیر متوقع عدالتی کارروائی اور پھر غیر معمولی فیصلہ، سابق آمر جنرل مشرف کو پھانسی کی سزا کا تاریخی فیصلہ اور گھسیٹنے کی سزا کا نا قابل قبول پیرا 66: غرض اسی ہماہمی میں، جاگتی سوتی آنکھوں نے بہت کچھ دیکھ لیا۔ نئے سال میں امید ہے کہ اپوزیشن خواب غفلت سے بیدار ہو گی، پارلیمان اپنا حق تسلیم کرائے گی، عوامی راج کے سُہانے نعرے پر عمل ہو گا، جوڑ توڑ اور محلاتی سازشوں سے جمہوریت محفوظ رہے گی اور ووٹ کو عزت دینے کے عملی اقدامات کیے جائیں گے.

ایک سال بیت گیا، قیمتی تین سو پینسٹھ دن گزر گئے۔ انصاف کے دور میں عوام کے ساتھ بے انصافی کے تین سو پینسٹھ دن، احتساب کے دور میں خود احتسابی سے دور یہ دن، عوام کو رلاتے، تکلیف پہنچاتے یہ دن۔

تین کے اشاریے کے اردگرد گھومتی پاکستان کی معیشت نیچے چلی گئی، دس لاکھ افراد بے روزگار ہوئے، کئی کاروبار بند، روزگار ناپید، لاکھوں نوجوان دماغ مایوس ہو کر ملک سے روانہ، سُست معیشت کے رکتے پہیے نے کئی چولہے بند کئے۔۔۔ یہاں تک کہ تبدیلی بدنام ہوئی کپتان تیرے لیے۔

صحافت کے بُرے دن مزید بُرے ہوئے، میڈیا ورکرز نکالے گئے جو رہ گئے وہ ہر مہینے آمدنی کو ترس رہے ہیں۔

سندھ میں صحافیوں پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت کارروائیاں شروع ہوئیں، عجیب لاکھو کا مقدمہ آج بھی ایک مثال ہے۔

سولہ صحافیوں کے قاتلوں کا نشان تا حال نہیں مل سکا، جبکہ دنیا کے نقشے پر صحافیوں کی عالمی تنظیم کے مطابق صحافیوں کو لاحق خطرات میں پاکستان اس وقت بھی افغانستان، صومالیہ، عراق، شام، فلپائن، میکسیکو اور جنوبی سوڈان کے بعد آٹھویں نمبر پر ہے۔

قلم کی حفاظت کو نکلنے والے اپنی تقدیر کے لوح و قلم ڈھونڈ رہے ہیں۔ کچھ لاپتہ واپس آئے کچھ مزید لاپتہ ہوئے۔ یہاں تک کہ لاپتہ لوگوں کے وکیل بھی لاپتہ ہوگئے۔

کرکٹ ٹیم ہو یا فاسٹ باولرز کی رینکنگ، ٹیسٹ کرکٹ ہو یا ون ڈے، ہر چیز کا گراف نیچے ہی گیا۔ لیکن ٹھہریے۔ ایک ہی چیز کا گراف اوپر جا رہا ہے اور وہ ہیں حریم شاہ کی وڈیوز۔

اس سب کے باوجود میں 2020 سے قطعی مایوس نہیں ہوں۔ اُمید ہے کہ نئے سال میں معیشت بہتر ہو گی، روزگار بڑھے گا، سیاسی استحکام آئے گا۔ سول ملٹری تعلقات کا ایک صفحہ اپنی جگہ قائم رہے گا اور ہو سکتا ہے کہ عوام بھی اُس صفحے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

نئے سال میں امید ہے کہ اپوزیشن خواب غفلت سے بیدار ہو گی، پارلیمان اپنا حق تسلیم کرائے گی، عوامی راج کے سُہانے نعرے پر عمل ہو گا، جوڑ توڑ اور محلاتی سازشوں سے جمہوریت محفوظ رہے گی، ووٹ کو عزت دینے کے عملی اقدامات کیے جائیں گے، احتساب بلا امتیاز ہو گا، انصاف بلا روک ٹوک ملے گا جبکہ روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ پانی، بجلی اور گیس بھی سستے نرخوں دستیاب ہوں گے۔

دعا ہے کہ سال نو میں امن ہو، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم ہو، خوشحالی عام ہو، دنیا میں کھوئی ہوئی عزت واپس ملے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).