ہاں مگر


اشاروں سے کہانی مکمل کریں
مجھے دباؤ میں کھیلنا آتا ہے

اقوام متحدہ کا اجلاس، وزیراعظم پاکستان جناب عمران احمد خان نیازی کی اس اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد سے روانگی، مہینوں پہلے وہاں کی جانے والی تقریر کی مشہوری، وزیراعظم کا خود کو کشمیریوں کا سفیر کہنا، پاکستان سے روانہ ہونا، راستے میں سعودی عرب میں مختصر قیام، ایک دفعہ پھر تکرار اور شہرہ کہ جناب مسلم امہ کے لیڈر ہیں، پھر وہاں سے سعودی ولی عہد کے قیمتی اورذاتی جہاز میں امریکا کے لیے روانگی، امریکہ میں دھواں دار تقریر، تقریر میں ایٹمی جنگ کی دھمکی، پاکستانیوں کی طرح مہاتیرمحمد اور طیب ایردگان کا بھی ان کی تقریر سے متاثر ہوجانا۔

وہیں جناب کی ایران، ترکی اورملائیشیاکے صدورکے ساتھ نیویارک میں ملاقات، باہمی گفت وشنید میں مسلم امہ کا نقطہ نظر واضح کرنے اور مغربی پروپیگنڈے کے توڑکے لیے انگریزی زبان میں ایک بین الاقوامی چینل کے قیام کا اعلان کرنا، طیب ایردوان کا مسلم ممالک کے لیے کسی نئی مگر مؤثر تنظیم کے قیام کی طرف اشارہ کرنا، ایران، ملائیشیا اور ترکی کا کشمیر کے معاملے میں پاکستان کی حمایت کرنا، سعودی عرب کا بوجوہ یہ کہنا کہ کشمیر کو مسلم امہ کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔

واپسی کے سفر میں سعودی ولی عہد کے طیارے میں ”اچانک“ خرابی کا پید ا ہوجانا، وزیراعظم کو بخیریت جہاز سے ”اتار“ لیا جانا، خلاف توقع سعودی ولی عہد کا عربوں کی مہمان نوازی کی روایات کے خلاف اچانک سردمہر بن جانا، اس سارے ہنگامے میں جناب وزیراعظم کا مسلم امہ کا ہیروہونا اور سعودی ولی عہد کے جہاز کا اچانک پس منظر میں چلے جانا، وزیراعظم عمران خان کا سعودی ائیرلائن کی ایک عمومی پرواز سے واپس سعودی عرب پہنچنا اور پھر وہاں سے پاکستان آجانا۔

انڈیا کا مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر مستقل ضم کرنے کی راہ میں مانع آرٹیکل کا ختم کر دینا، پاکستانیوں اورکشمیریوں کا بے چین ہوجانا، کشمیریوں کا مزاحمت کرنا، بھارت کا ظلم و ستم کا بازار گرم کرنا، کرفیو لگا کر پوری وادی کو جیل میں تبدیل کر دینا، تمام مسلم ممالک کا بے چین ہونا فطرتی امر ٹھہرنالیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بھارتی وزیراعظم کاعظیم استقبال کرنا اوراربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کرنا۔

پاکستان میں امہ امہ کا شور مچنا، سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کاپاکستان کا دورہ کرنا اوراس غلط فہمی کا ازالہ کرناکہ کشمیر مسلم امہ کا مسئلہ نہیں ہے، دوسری طرف سے ترکی اور ملائیشیا کاکشمیر کو لے کر بھارت پر کڑی تنقید کرنا، ایف اے ٹی ایف میں بھی ترکی اور ملائیشیاکا ہی پاکستان کی حمایت میں کھڑے رہنا، ان کی حمایت سے پاکستان کا بلیک لسٹ ہونے سے بچ جانا، حالات سنجیدہ ہونا، پاکستان میں بھی پروپیگنڈا ہونا کہ حالات اس قدر سنجیدہ ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تقرری بھی مشکل ہے، اسی پس منظر میں کئی مہینے پہلے ہی موجودہ آرمی چیف کی ایکسٹیشن کا نوٹیفکیشن جاری ہوجانا، اس سے پاکستانیوں کے دل میں اس بات کا اور پختہ ہوجانا کہ حالات واقعی بہت خراب ہیں، مسلم ممالک کا مداوہ اب اسی بات میں مضمر ہے کہ اس اتحاد کو جلد تشکیل دیا جائے جس کا وعدہ اور خوشخبری اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران سننے میں آئی تھی اور پاکستان سمیت ایرن، ترکی اور ملائیشیا بھی یہی چاہتے ہیں، دسمبر میں اس اتحاد کی پہلی باقاعدہ کانفرنس کے ہونے کا اعلان ہونا اور یارلوگوں کا ایک بار پھر یہ ڈھول پیٹنا کہ کپتان اس صدی کا عظیم لیڈراورمسلم امہ کا مسیحا ہے۔

اعلان ہونے کی دیر کہ افواہوں کا بازار گرم ہو جاناکہ سعودیہ اس بات پر راضی نہیں ہے، کچھ لوگوں کا کہنا کہ وزیراعظم دباؤ میں کھیلنا جانتے ہیں اورانہوں نے اعلان بھی کررکھا ہے کہ نہ خود جھکیں گے اور نہ ہی اپنی قوم کو جھکنے دیں گے، لیکن اپنے وزیراعظم کا پھر اچانک پھر سعودی عرب کے ”خیر سگالی“ دورے پر جا پہنچنا، پھرافواہوں کا وہ دھواں اٹھنا کہ آسمان تک دکھائی نہ دینا، لیکن یارلوگوں کا کہنا کہ وہیں سے وہ کانفرنس میں شرکت کے روانہ ہو جائیں گے، اب بس مسلم امہ کے تابناک مستقبل کا سورج طلوع ہوا ہی چاہتا ہے، پھر اچانک اطلاع آنا کہ وزیراعظم خود نہیں جا پائیں گے، وزیراعظم صاحب کا مہاتیر محمد کو فون کرنا، انہیں اپنی مجبوریوں سے آگاہ کرنا، ہائیں اب کیا ہوگا؟

اچانک اعلان ہونا کہ فکر کی کوئی بات نہیں وزیراعظم کی جگہ وزیر خارجہ جائیں گے، اجی اپنے وہی شاہ صاحب جنہوں نے ایک دفعہ انگریزی زدہ لہجے میں اردو بولتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آج کے بعد دفتر خارجہ میں ہی بنے گی، پتا نہیں وہ اس بات سے کیا بتلانا چاہ رہے تھے، بہرحال واپس آتے ہیں آؤٹ لائنز کی طرف:، ابھی اس بیان کی سیاہی خشک نہیں ہوئی ہے، اچانک اور اعلان ہونا کہ اپنے وزیرخارجہ بھی نہیں جا رہے ”دشمنوں کا کہنا کہ اب تو کانفرنس پکی ختم ہی سمجھو، لیکن مسلم امہ کے لیڈر اور مسیحا کے بغیر ہی اس کانفرنس کاہو جانا، ترک صدر کا یہ انکشاف کرنا کہ پاکستان کی عدم شرکت سعودی عرب کے دباؤ کا نتیجہ ہے، کون سا دباؤ؟

یہی کہ پاکستان کے دیے جانے والے دکھاوے کے ڈالر واپس ہو جائیں گے اورپاکستانیوں کو سعودی عرب سے واپس بھجوا دیا جائے گا، نون لیگ کے حامیوں کا تحریک انصاف والوں کوطعنہ دیناکہ تمہارے کپتان سے تو نواز شریف بہادر نکلا؟ وہ کیسے؟ جی ایسا ہی دباؤ سعودی عرب نے اس پر بھی ڈالا تھا، کب؟ جب اس نے کہا تھا کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف ہمارے شانہ بشانہ لڑو، نہیں تو ہم پاکستانیوں کو واپس بھیج دیں گے اور دیے گئے ڈالر بھی واپس لے لیں گے، متحدہ عرب امارات نے تو باقاعدہ اعلان بھی کر دیالیکن نواز شریف نے ایران اور سعودی عرب میں کسی ایک کا فریق بننے کی بجائے غیرجانبدار رہ کر اپنا کردار نبھایا، تمہارا کپتان ہمیشہ کہتا تھا کہ مجھے مخالف ملک میں کھیلنا بھی آتا ہے اور لاکھوں تماشائیوں کا دباؤ برداشت کرنابھی لیکن وہ تو ایک ولی عہد کا دباؤ تک برداشت نہ کرسکا، تحریک انصاف والوں کا اوں آں کرنا، وزیراعظم کا اس دباؤ کی نہ تردید کرنا اور نہ ہی تصدیق کرنا، سو جوتے اور سو پیاز، لیکن اس دوران سعودی عرب کا اس مبینہ دباؤ کی تردید کرنا، لوگوں کو گواہ چست مدعی سست کی ضرب المثل کا یاد آنا، لوگوں کا کہنا کہ سعودی عرب نے توپاکستان کو بھائی کہا ہواتھا اورمجھے مولانا الطاف حسین حالی کا یہ شعر یاد آنا:

آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments