شیڈو اکانومی سٹیٹ


شیڈو اکانومی سے آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟ چھپی ہوئی معیشیت۔ اس سے کیا مراد ہے؟ ہم ترقی یافتہ دنیا سے شروع کرتے ہیں۔ جن ملکوں پر الزام ہے کہ جمہوریت برائے نام ہے یا کنٹڑول جمہوریت ہے۔ مثال کے طور پر روس اور چین۔ وہاں پر سٹیٹ کی رٹ پر کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔

کچھ مغربی ممالک شیڈو اکانومی کو اس حد تک نظر انداز کررہے ہوتے ہیں کہ مثال کے طور پر برطانیہ میں جو لوگ غیر قانونی گھس جاتے ہیں۔ یا جو لوگ پناہ اپلائی کرنے کے بعد ایک عشرے کے لیے پھنس جاتے ہیں۔ بار بار اپلائی کرتے ہیں۔ وکلا کو فیس دیتے ہیں۔ امیگریشن کے سارے لوازمات پورے کرنے میں انہیں برسوں بیت جاتے ہیں۔ ان ممالک کو مین پاور چاہیے ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے یہ نظام ناپ تول کہ بنایا ہے۔ اس بنائے ہوئے نظام میں ان کے اپنے مفادات پنپتے ہیں۔

نہیں تو وہ پانچ دن بیٹھ کر ٹیسٹ میچ کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں آئے گا کہ ٹیست میچ دیکھنا کیا مسئلہ ہے؟ کیپٹلزم دنیا میں اتنا سارا وقت نکالنا کٹھن کام ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ سٹیٹ کی رٹ جان بوجھ کہ ڈھیلی ہوتی ہے۔ اگر وہ چاہیں کہ شیڈو اکانومی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں تو سٹیٹ بہت ایفیشینٹ ہے وہ ایسا کرسکتی ہے۔ اس بات کو اگر کچھ اس طرح سمجھیں کہ سٹیٹ کی ایفی شنسی کو اس کے پاور استعمال کرنے کے اختیار سے الگ کرتے ہیں۔ تو گویا سٹیٹ کا ایفی شینٹ ہونا اور سٹیٹ کا پاور استعمال کرنا دو بالکل مختلف باتیں ہیں۔ سب ملکوں میں سٹیٹ پاورفل تو ہوتی ہی ہے۔ لیکن ایفی شینٹ ساری سٹیٹس نہیں ہوتی۔

شیڈو اکانومی بھی اکانومی کا ایک حصہ ہے۔ میعشت کا اندازہ رکھنے والوں کے پاس اس کے اعداد و شمار ہوتے ہیں۔ جب شیڈو اکانومی ملک کی اکانومی کا کندھا چھونے لگے تو ملک کی دیواریں کانپنے لگتی ہیں۔ سٹیٹس کے ترقی پذیر ہونے کی یہ ایک بہت بڑی وجہ ہوتی ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک کی شیڈو اکانومی ایک منی سٹیٹ کی طرح ہے۔ جس سے ملک یا اصل سٹیٹ کو برسر پیکار ہونا پڑتا ہے۔ شیڈو اکانومی سٹیٹ کے خلاف کس نے ہلہ بولنا ہے؟ سیاستدانوں نے؟ اگر کرپشن کلچر کی قابل قبول روایت ہے تو پھر یہ پیچیدہ بات ہے۔

فرض کرتے ہیں کہ آپ کا دل چاہا ہے کہ آپ سیاست میں آجائیں۔ آپ ایک سیاسی جماعت میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مڈ بھیڑ ہے۔ کھینچا تانی ہے۔ پھر بھی آپ سیڑھی پر چڑھ جاتے ہیں اوپر سے ریلا آپ کو نیچے دھکیلتا ہے۔ نیچے والوں کے کندھے کا سہارا لے کر آپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ سیڑھی کے سٹپ پے کھڑے رہیں۔ آپ کی جماعت الیکشن جیت گئی ہے۔ پانچ سال کا عرصہ ہے آپ کے پاس۔ آپ نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ آپ اتنا اچھا ہاتھ مار لیں کہ جب آپ کے پانچ سال ختم ہوں آپ اپوزیشن کرنے کا خرچہ بھی کمالیں۔

یا تو پھر آپ جدی پشتی امیر ہیں یعنی آپ کے آباؤ اجداد امیر تھے اور ورثے میں آپ کو بہت کچھ ملا ہوا ہے۔ ان پیسوں کو آپ نے ڈالروں میں ادا کرکہ ایم۔ آئی۔ ٹی سے ڈگری لی ایسے میں تو آپ نے سیدھا منسٹر بننا ہوتا ہے۔ وہ بھی وفاق کا۔ آپ پر کوئی الزام نہیں۔ دادا پردادا امیر تھے۔ ان کا کیا ذکر کرنا؟ انگریزوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوئے ہوں گے۔ خیر امیر ہونے کے جائز طریقے بھی ہیں۔ اس لیے سارے امرا کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اللہ تعالی کی بھی اپنی تقسیم ہے۔

نہیں تو آپ کے آباؤ اجداد نے ترکہ نہیں چھوڑا۔ پھر آپ کو کچھ کرنا پڑے گا۔ وہی جو میں نے اوپر عرض کیا ہے۔ آپ قانون بنا رہے ہیں یا قانون بنانے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آپ نے اپنے آپ کو تگڑا کرنا ہے۔ تاکہ پانچ دس سال اپوزیشن کرتے ہوے اپنا خرچہ اٹھا سکیں۔ کیا آپ شیڈو اکانومی بنائیں گے؟ یعنی آپ سٹیٹ کے قانون ساز ذمہ دار بھی ہیں اور ساتھ ہی آپ شیڈو اکانومی سٹیٹ کے ایکٹو ممبر بھی ہیں۔ آپ ایسا نہیں کرسکے تو سیاست کے بے رحم سمندر میں آپ ڈوب سکتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ سیاست بے رحم کھیل ہے۔ سیاست کو ہندی میں راج نیتی کہتے ہیں۔ یعنی راج کرنے کی نیت۔

ترقی یافتہ جمہوری ملک اور ترقی پذیر جمہوری ملک میں یہ فرق تو ہے کہ اگر آپ ترقی یافتہ ملک میں شیڈو اکانومی سٹیٹ کے ممبر پاے گیے تو ایک بات طے ہے کہ آپ سیاست نہیں کرسکتے۔ کوئی سیاسی پارٹی آپ کو قبول نہیں کرے گی۔ بلکہ آپ سے دور بھاگے گی۔ چونکہ آپ کا سکینڈل پوری سیاسی پارٹی کو دھڑام سے گرا سکتا ہے۔

مثالی جمہوریت کی ایک زبردست مثال لیتے ہیں۔ امریکی صدر پر یہ الزام ہے کہ موصوف نے اپنی ذاتی سیاست اور مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دی اور یوکرین کے نومنتخب صدر کو کو کہا کہ تم اپنے ملک میں گذشتہ امریکی الیکشن میں مداخلت کی تفتیش شروع کرو تاکہ گذشتہ امریکی الیکشن میں مبینہ روسی مداخلت سے فوکس ہٹے۔ اور جو بائیڈن اور موصوف کے بیٹے کے خلاف تفتیش شروع کرو۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن اگلے سال امریکی صدارتی الیکشن میں امیدوار ہیں۔

چنانچہ اس ضمن میں یوکرین کی وہ امداد جو امریکی فارن پالیسی کے تحت یوکرین کو دی جانی تھی مذکورہ امداد پر صدر ٹرمپ تاخیری حربے استعمال کرتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی کال انٹلی جینس نے سنی اور سیٹی بجادی۔ تو ملکی مفاد پر اپنے ذاتی یا سیاسی مفاد کو ترجیح دینا کرپشن اور غدار ی کے ذمرے میں آتا ہے۔ امریکی صدر اس مواخذے کے نتیجے میں نا اہل بھی ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ جتنے امریکی صدور کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا وہ اپنا اگلا الیکشن ہار گیے تھے۔

اور ہاں سکینڈل کی بھی تعریف ترقی پذیر اور ترقی یافتہ معاشرے میں مختلف ہے۔ ظاہر ہے جنھوں نے ترقی پذیر معاشرے پر راج کرنا ہے۔ وہ ان سکینڈلز سے بچنے کی کوشش کریں گے جو ترقی پذیر معاشرے میں شرمناک اور بدنامی کی وجہ سمجھے جاتے ہیں۔ اور جسے عوام سکینڈل ہی نہیں سمجھتی۔ اس کا کیا ہوگا؟ یعنی پاور مس یوز اور پولیٹکل کرپشن کو اگر عوام یعنی وہ عوام جو پڑھی لکھی نہیں ہے سکینڈل ہی نہ سمجھے تو اسے نہیں روکا جاسکتا کہ وہ الیکشن میں سب سے کرپٹ سیاستدان کے بکسے ووٹوں سے بھر دے۔

ترقی پذیر معاشرے کی سیاسی پارٹیوں میں ایک ریت بڑی دلچسپ ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں ٹیلنٹ کو گھسنے نہیں دینا۔ نا اہل لوگوں کو پروموٹ کرنا تاکہ پہلے سے موجود لوگوں کی اجارہ داری قائم رہے۔ ایک روایت ہے کہ ایک امریکی جنرل سے پوچھا گیا کہ اپنے کیرئر کے دوران سب سے اہم کام اس نے کیا کیا؟ موصوف نے کہا کہ اس نے اپنے کیریئر کے دوران سب سے اہم کام یہ کیا کہ سابقہ سوویت یونین میں نا اہل لوگوں کو پروموٹ کرنے میں مدد کی۔ موصوف جنرل اپنے کیرئر کے دوران انٹلی جینس ٹاسکس پر بھی کام کرتے رہے تھے۔ یاد رہے کہ لفظ پروموٹ کرنا ہمہ گیر اصطلاح ہے۔ اس سے مراد بیوروکریسی کی پروموشن نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments