بلاول بھٹو کی گگلی آف دی ایئر


کراچی میں سندھ حکومت کے چار میگا ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے اچانک متحدہ قومی موومنٹ کو سندھ حکومت میں شراکت کی پیشکش کرکے ہلچل مچادی، انہوں نے ایم کیو ایم کو وفاقی سرکار سے علیحدگی کی شرط پہ انہیں سندھ حکومت میں وزارتیں دینے اور کراچی کی تعمیر و ترقی کا عمل مشترکہ طور پہ انجام دینے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ آئیں کراچی کے لئے مل کر کام کریں مگر اس کے لئے آپ کو وفاقی سرکار سے الگ ہونا پڑے گا عمران خان حکومت کو گرانا پڑے گا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری جب کراچی کے لئے چار ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے گئے تو میئر کراچی وسیم اختر بھی افتتاحی تقریب میں مدعو تھے وہاں وہ پی ٹی آئی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کراچی اور اتحادیوں کو مسلسل نظر انداز کرنے، کراچی کو اس کے حق سے محروم رکھنے کی دہائیاں دیتے، پی ٹی آئی حکومت کے خلاف شکایات کرتے نظر آئے، وہ اس بات پر بھی سخت مضطرب تھے کہ وزیراعظم عمران خان کراچی آتے ہیں ملاقات بھی کرتے ہیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، وزیراعظم انہیں اور اپنی پارٹی کے اراکین کو بھی کوئی نہ کوئی نئی لالی پاپ دے کر چلے جاتے ہیں اور بات آئی گئی ہو جاتی۔

اسی دوران منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو نے متحدہ قومی موومنٹ کو سندھ حکومت میں شمولیت کی مشروط دعوت دے ڈالی اور شرط رکھی عمران خان کی حکومت سے علیحدگی کی، ساتھ یہ بھی کہا کہ جتنی وزارتیں ان کے پاس مرکز میں ہیں وہ ان کو سندھ میں دینے کے لئے تیار ہیں، بلاول بھٹو زرداری نے متحدہ سے کہا کہ آئیں ساتھ مل کر سندھ کو اس کا حق دلوانے کی کوشش کریں، پورے سندھ سمیت کراچی کو اس کی چھینی گئی گیس، بجلی اور پانی دلوائیں، سندھ کے ساتھ مسلسل نا انصافیوں کو روکیں، کراچی کے شہریوں کے وفاقی حکومت کی جانب سے سلب کیے گئے حق واپس دلوائیں، ترقی کے پہیے کو تیز کریں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ عمران خان نیازی اور ان کی حکومت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم کو یہ آفر تو کر دی مگر وفاقی حکومت کے صفوں میں ہلچل مچادی، سرکاری ردالی بلاول کے خلاف صف آرا ہوکر ماتم کرنے لگے۔ فردوس عاشق اعوان کو سیالکوٹ بسے اپنی مسلسل ذلت آمیز شکست تو یاد نہ آئی مگر پیپلز پارٹی کی لاڑکانہ میں صوبائی نشست کی شکست یاد آگئی، تو مراد سعید وہی پرچی چیئرمین کا پرانا راگ الاپنے لگے یہ بھول کر کہ بلاول بھٹو زرداری کو سیاست وراثت میں ملی جب کہ مراد سعید جعلی ڈگری پہ آج تک قانون کی کمزوریوں سے مستفید ہورہے ہیں۔

جبکہ خود سلیکٹرز اور خان صاحب کی بہت ہی خاص نوازشات کی بناء پر کارزارِ سیاست میں پچھلے چھ سات سالوں چیخنے چلانے کا کام کر رہے ہیں جو وہ روزانہ بنی گالا میں کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی اس سیاسی چال پر متحدہ قومی موومنٹ کا ردعمل بھی پی ٹی آئی کے لئے خاصا تشویشناک ہے، متحدہ جو اب منتشر و منقسم قومی موومنٹ کی شکل اختیار کر چکی ہے وہ سندھ کے بلدیاتی سسٹم میں تبدیلی کے عیوض پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کے لئے تیار نظر آتی ہے۔

ایسی صورتحال میں خان صاحب نے ایم کیو ایم کے تحفظات سننے اور انہیں دور کرنے کے لئے اپنے خاص مہرے سرٹیفائیڈ نا اہل جہانگیر ترین کی مدعیت میں ایک ٹیم تشکیل دے دی ہے جو متحدہ قومی موومنٹ سے بات چیت کرے گی جبکہ گورنر سندھ نے کراچی بحالی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس فوری طور پر طلب کر لیا ہے۔ وفاقی حکومتی ایوانوں میں ہلچل وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی بوکھلاہٹ کا واضح اظہار ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے ووٹوں کی بیساکھیوں پہ کھڑی نیازی حکومت ملکی سیاسی تاریخ کی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی سب سے کمزور اور بے بس حکومت ہے جو اپنے اتحادیوں اور چند آزاد اراکین کی مرہون منت اقتدار پہ براجمان ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی چال چل کر نہ صرف پی ٹی آئی حکومت کو مضطرب کردیا بلکہ انہوں نے ایک طرح سے متحدہ قومی موومنٹ کا بارگیننگ ریٹ بھی بڑھا دیا، متحدہ جو وزیراعظم سے بار بار اپنے بند کیے گئے دفاتر کھولنے اور دہشتگردی، لوٹ مار، بلووں، جلاؤ گھیراؤ میں ملوث کارکنوں کی آزادی کے لئے مطالبات کرتی رہتی ہے اس بار چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی پیشکش نے انہیں موقع فراہم کیا ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان پہ اپنے دباؤ میں شدت پیدا کرتے ہوئے ان سے اپنے مطالبات منوا سکیں۔

ایم کیو ایم کے اکثر رہنما بلاول بھٹو زرداری کی پیشکش کے بعد کھل کر ایم کیو ایم پی ٹی آئی تناؤ اور وزیراعظم کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد کے مسائل سے مسلسل روگردانی پر اپنے تحفظات اور شکایات کا اظہار کرتے بھی نظر آ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن کا پی ٹی آئی حکومت سے وعدہ خلافی کا شکوہ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے بلدیاتی نظام میں بہتری کی صورت غیر مشروط اتحاد کا بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پہلے سے مشکلات میں گھری پی ٹی آئی حکومت کی صفوں میں ہڑبونگ مچادی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے لئے ایم کیو ایم کے وہ مطالبات جو بند دفاتر کھولنے اور سنگین جرائم میں ملوث کارکنان کی آزادی کے حوالے سے ہیں ان کو پورا کرنا نہ صرف بہت مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہیں جبکہ کراچی و حیدرآباد کی ترقی اور فنڈز کی فراہمی کے بارے میں شکایات کا ازالہ بھی کافی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ گزشتہ چند سالوں سے متحدہ قومی موومنٹ کے سندھ کی تقسیم کے حوالے سے بیانات، ان کے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی جانب سے سندھ کی وحدت و صوبائی خودمختاری پہ قدغنیں ڈالنے کی کوششوں کی وجہ سے سندھ کی عوام میں ایم کیو ایم کے خلاف شدید ترین ردعمل پایا جاتا ہے جو شدید نفرت کی حدوں کو چھو رہا ہے جبکہ سندھ کی عوام اور ان کی پارٹی کے اپنے کارکنان ایم کیو ایم سے اتحاد کو کسی صورت پسند نہیں کریں گے لیکن پھر بھی انہوں نے ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی پیش کر کے سال کی بہت بڑی سیاسی چال چلی ہے اور حکومتی صفوں میں انتشار اور افراتفری کی صورتحال پیدا کردی ہے اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سال کے اختتام پہ گگلی آف دی ایئر کروائی ہے تو غلط نہ ہوگا اور نئے سال کا آغاز ملک کا کرکٹر وزیراعظم کس طرح چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی اس گگلی کو کھیل کر کرتا ہے اس کا انتظار رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments