کہیں حریم شاہ نے تو اپوزیشن لیڈروں سے ہاں نہیں کروا دی؟


اپوزیشن پارٹیاں بہت پکی تھیں کہ وہ ووٹ کو عزت دلوا کر رہیں گی۔ اس مقصد کی خاطر میاں نواز شریف اپنی محبوب اہلیہ کے آخری لمحات میں ساتھ نہیں رہے اور مریم نے اپنی ماں کے پہلو کی بجائے جیل کی کوٹھڑی قبول کی۔ سال ڈیڑھ سال نواز شریف نے صعوبتیں برداشت کیں مگر ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگاتے رہے۔

آصف علی زرداری اور فریال تالپور نے فالودے والے سکینڈل سے لے کر لچھے والی باتوں تک کو ٹھکرایا مگر اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے انکاری رہے۔ وہ تو ضمانت کی درخواست تک دینے کے روادار نہ تھے۔

بلاول کیسے گرج رہے تھے۔ خواجہ آصف کیسے برس رہے تھے۔ بلکہ حکومت جس طرح میڈیکل بورڈ بنا بنا کر بھیج رہی تھی اور ان کی رپورٹس لیک کروا رہی تھی کہ نواز شریف کسی طرح اس کی جان چھوڑ کر ضمانت لے لیں، اور نواز شریف جس طرح مریم کی ضمانت کے بغیر گھر جانے سے انکاری تھے، وہ ان کے ارادے کی پختگی اور حکومت کی پریشانی کو بخوبی ظاہر کر رہا تھا۔

دوسری طرف آصف زرداری کا مقدمہ سندھ میں چلانے کی بجائے انہیں اسلام آباد میں گھسیٹا جا رہا تھا اور کوئی رعایت نہیں دی جا رہی تھی، لیکن پھر بھی وہ استقامت کا پہاڑ بنے کھڑے تھے اور سمجھوتہ کرنے سے انکاری تھی، وہ اپنی جگہ ایک داستان ہے۔

بظاہر تو وزیراعظم یہ کہہ رہے تھے کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے، لیکن سب کو دکھائی دے رہا تھا کہ حکومت این آر او دینے کے لئے بری طرح ہاتھ پاؤں مار رہی تھی لیکن اپوزیشن اس میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔

پھر یکایک کیا ہوا کہ نواز شریف نے بھی ضمانت لے لی اور آصف زرداری نے بھی۔ خبروں کے مطابق ان کے ساتھیوں نے ان پر بے پناہ دباؤ ڈال کر ضمانت پر راضی کیا جبکہ وہ اس کی شدید مزاحمت کر رہے تھے۔ رانا ثنا اللہ بھی باہر آ گئے۔

لیکن پھر میچ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کی قانون سازی کے معاملے پر اٹک گیا۔ اپوزیشن نرمی دکھانے کے موڈ میں نہیں تھی اور نخرے کر رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت نے عاجز آ کر آج صبح سپریم کورٹ میں ایکسٹینشن کے فیصلے پر حکم امتناع حاصل کرنے کی درخواست کر دی۔ لیکن شام کو خبریں آ گئیں کہ نون لیگ نے قانون سازی کے معاملے میں حکومت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر دیا ہے اور پیپلز پارٹی مزاحمت کر رہی ہے۔ نون لیگ کی حمایت کے بعد قانون کی منظوری میں حکومت کو کوئی دقت نہیں ہو گی اور وہ پیپلز پارٹی کی حمایت کی محتاج نہیں ہے۔

نون لیگ کی اس یکایک غیر مشروط کایا پلٹ کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے۔ پچھلے دنوں کوئی خاص معاہدہ سامنے نہیں آیا۔ پچھلے دنوں تو پاکستان میں بس حریم شاہ اور صندل خٹک چھائی رہی تھیں۔ کبھی وہ کسی انصافی لیڈر کو ڈراتی تھیں کبھی کسی کو دھمکاتی تھیں۔ ہمارے محبوب سیاسی راہنما شیخ رشید کو تو ان بتوں نے اتنا رنج دیا کہ انہیں خدا یاد آیا اور وہ سوئے حرم روانہ ہوئے۔

کیا یہ بات دلچسپ نہیں ہے کہ حریم شاہ کا سارا فوکس تحریک انصاف پر تھا جبکہ اپوزیشن لیڈر ان سے محفوظ رہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپوزیشن لیڈر یہ سوچ رہے ہوں کہ کہیں حریم شاہ نے محض ڈیمو تو نہیں دیا کہ حکومتی لیڈروں کے ساتھ میں یہ سلوک کر سکتی ہوں تو اپوزیشن والے کس کھیت کی مولی ہیں وہ تو ویسے ہی جیل کے پنچھی ہیں، ایک باہر آتا ہے تو دوسرا اندر جاتا ہے۔

یوں بھی فلمی دنیا کا تجربہ نون لیگ کے لئے خوشگوار نہیں رہا اور انہوں نے فلموں کے سبب خوب سزا پائی۔ خود کو ہیرو سمجھ بیٹھے تھے مگر زیرو نکلے۔ اب وہ لرز نہ رہے ہوں کہ فلم کے ویلن کے روپ میں شیخ رشید جیسے گفتار کے غازی نہ ٹک سکے تو نون لیگ والوں جیسے کردار کے غازیوں کی بھلا کیا حیثیت ہے۔

ہمیں تو یہی گمان ہو رہا ہے کہ حریم شاہ ڈرا تحریک انصاف کو رہی تھیں لیکن ڈر نون لیگ والے گئے ہیں۔ شیخ رشید کو دیکھ کر اپوزیشن والے گھبرا گئے ہیں اور یہ ورد کرتے ہوئے ایکسٹینشن کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر دیا ہے کہ
میں نے اس کے سامنے پہلے تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجہ رکھ دیا دل رکھ دیا سر رکھ دیا

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments